کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق عشق معشوق عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق گر پرستش خدا کی ثابت کی کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق ہے ہمارے بھی طور کا عاشق جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق کوئی خواہاں نہیں محبت کا تو کہے جنس ناروا ہے عشق میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق