کیوں ہو گئے حقیر خود اپنی نگاہ میں
کیا دیکھ آئے ہم یہ تری جلوہ گاہ میں
کیا کیا گماں ہیں ہم پہ ہماری نگاہ کو
ہم جب سے آ بسے ہیں تمہاری نگاہ میں
خود حسن سے بھی بچ کے گزرنا پڑا جہاں
آئے وہ مرحلے بھی محبت کی راہ میں
یہ کن بلندیوں کا تجسس نظر کو ہے
لگتا نہیں دل انجمن مہر و ماہ میں
مٹ ہی چکے تھے رزم گہہ زندگی میں ہم
قسمت سے آ گئے ترے غم کی پناہ میں
تم نے مجھے بنا کے گناہ گار آرزو
بھر دی ہیں جنتیں مرے ذوق گناہ میں
تمہید شوق کی بھی شکایت لبوں پہ ہے
تکمیل شوق کے بھی تقاضے نگاہ میں
کرتے شکایت ستم بے حساب کیا
ہم کھو کے رہ گئے کرم گاہ گاہ میں
یہ کیا خیال ہے تجھے اے قلب نامراد
کوئی شریک ہو ترے حال تباہ میں
مخمورؔ شام غم کی فضائیں سلگ اٹھیں
کس آتش نہاں کے شرارے تھے آہ میں
مخمور سعیدی