گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے بہار آئے تو دیوانوں کی رسوائی بھی ہوتی ہے ہم ان کی بزم تک جا ہی پہنچتے ہیں کسی صورت اگرچہ راہ میں دیوار تنہائی بھی ہوتی ہے بکھرتی ہے وہی اکثر خزاں پرور بہاروں میں چمن میں جو کلی پہلے سے مرجھائی بھی ہوتی ہے بنام کفر و ایماں بے مروت ہیں جہاں دونوں وہاں شیخ و برہمن کی شناسائی بھی ہوتی ہے چمکتی ہے کوئی بجلی تو شمع رہ گزر بن کر نگاہ برہم ان کی کچھ تو شرمائی بھی ہوتی ہے قتیلؔ اس دم بھی رہتا ہے یہی احساس محرومی جب ان شانوں پہ زلفوں کی گھٹا چھائی بھی ہوتی ہے
قتیل شفائی