Iztirab

Iztirab

گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے

گریباں در گریباں نکتہ آرائی بھی ہوتی ہے 
بہار آئے تو دیوانوں کی رسوائی بھی ہوتی ہے 
ہم ان کی بزم تک جا ہی پہنچتے ہیں کسی صورت 
اگرچہ راہ میں دیوار تنہائی بھی ہوتی ہے 
بکھرتی ہے وہی اکثر خزاں پرور بہاروں میں 
چمن میں جو کلی پہلے سے مرجھائی بھی ہوتی ہے 
بنام کفر و ایماں بے مروت ہیں جہاں دونوں 
وہاں شیخ و برہمن کی شناسائی بھی ہوتی ہے 
چمکتی ہے کوئی بجلی تو شمع رہ گزر بن کر 
نگاہ برہم ان کی کچھ تو شرمائی بھی ہوتی ہے 
قتیلؔ اس دم بھی رہتا ہے یہی احساس محرومی 
جب ان شانوں پہ زلفوں کی گھٹا چھائی بھی ہوتی ہے 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *