گلاب جسم کا یوں ہی نہیں کھلا ہوگا ہوا نے پہلے تجھے پھر مجھے چھوا ہوگا شریر شوخ کرن مجھ کو چوم لیتی ہے ضرور اس میں اشارہ ترا چھپا ہوگا مری پسند پہ تجھ کو بھی رشک آئے گا کہ آئنے سے جہاں تیرا سامنا ہوگا یے اور بات کہ میں خود نہ پاس آ پائی پہ مرا سایہ تو ہر شب تجھے ملا ہوگا یے سوچ سوچ کے کٹتی نہیں ہے رات مری کہ تجھ کو سوتے ہوئے چاند دیکھتا ہوگا میں تیرے ساتھ رہوں گی وفا کی راہوں میں یہ عہد ہے نہ مرے دل سے تو جدا ہوگا
شہریار