گلہ فضول تھا عہد وفا کے ہوتے ہوئے
سو چپ رہا ستم ناروا کے ہوتے ہوئے
یہ قربتوں میں عجب فاصلے پڑے کہ مجھے
ہے آشنا کی طلب آشنا کے ہوتے ہوئے
وہ حیلہ گر ہیں جو مجبوریاں شمار کریں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے ہوتے ہوئے
نہ چاہنے پہ بھی تجھ کو خدا سے مانگ لیا
یہ حال ہے دل بے مدعا کے ہوتے ہوئے
نہ کر کسی پہ بھروسہ کہ کشتیاں ڈوبیں
خدا کے ہوتے ہوئے ناخدا کے ہوتے ہوئے
مگر یہ اہل ریا کس قدر برہنہ ہیں
گلیم و دلق و عبا و قبا کے ہوتے ہوئے
کسے خبر ہے کہ کاسہ بدست پھرتے ہیں
بہت سے لوگ سروں پر ہما کے ہوتے ہوئے
فرازؔ ایسے بھی لمحے کبھی کبھی آئے
کہ دل گرفتہ رہے دل ربا کے ہوتے ہوئے