Skip to content
ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
اور مجھ دل کی بدن آزاریاں
ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر
تیری قتالہ سرینی بھاریاں
اف شکن ہائے شکم جانم تری
کیا کٹاریں ہیں کٹاریں کاریاں
ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تیری مجبوریاں ناچاریاں
تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دودھوں سے ہیں چشمے جاریاں
دکھ غرور حشر کے جانا ہے کون
کس نے سمجھی حشر کی دشواریاں
اپنے درباں کو سنبھالے رکھئے
ہیں ہوس کی اپنی عزت داریاں
ہیں سدھاری کون سے شہروں طرف
لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں
خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے
دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں
خلوت مضراب ساز و ناز میں
چاہیے ہم کو تیری سسکاریاں
لفظ و معانی کا بہم کیوں ہے سخن
کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں
شوق کا اک داؤ بے شوقی بھی ہے
ہم ہیں اس کے حسن کے انکاریاں
مجھ سے بد طوری نہ کر او شہر یار
میرے جوتوں کے ہے تلوے خاریاں
کھا گئیں اس ظالم و مظلوم کو
میری مظلومی نما عیاریاں
یہ حرامی ہیں غریبوں کے رقیب
ہیں ملازم سب کے سب سرکاریاں
وہ جو ہیں جیتے انہوں نے بے طرح
جیتنے پر ہمتیں ہیں ہاریاں
تم سے جو کچھ بھی نہ کہہ پائیں میاں
آخرش کرتی وہ کیا بے چاریاں