ہائے ستم ناچار معیشت کرنی پڑی ہر خار کے ساتھ
جان عزیز گئی ہوتی کاش اب کے سال بہار کے ساتھ
کس آوارۂ عشق و جنوں کی اک مٹھی اب خاک اڑی
اڑتی پھرے ہے پس محفل جو راہ کے گرد و غبار کے ساتھ
وہ لحظہ نہیں جاتا جی سے آنکھ لڑی تھی جب اس سے
چاہ نکلتی تھی باتوں سے چتون بھی تھی پیار کے ساتھ
جی مارے شب مہ میں ہمارے قہر کیا مشاطہ نے
بل کھائے بالوں کو دئے بل اس کے گلے کے ہار کے ساتھ
کیا دن تھے جو ہم کو تنہا کہیں کہیں مل جاتا تھا
اب تو لگے ہی رہتے ہیں اغیار ہمارے یار کے ساتھ
دیدۂ تر سے چشمۂ جوشاں ہیں جو قریب اپنے واقع
تو ہی رود چلے جاتے ہیں لگ کر جیب و کنار کے ساتھ
ہم ہیں مریض عشق و جنوں سختی سے دل کو مت توڑو
نرم کرے ہیں حرف و حکایت اہل خرد بیمار کے ساتھ
رونے سے سب سر بر آئے خاک ہمارے سر پر میرؔ
مدت میں ہم ٹک لگ بیٹھے تھے اس کی دیوار کے ساتھ
دیر سے ہیں بیمار محبت ہم سے قطع امید کرو
جانیں ہی جاتی دیکھی ہیں ہم نے آخر اس آزار کے ساتھ
میر تقی میر