ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو
ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو
ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو
اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو
جنت کی منت ان کے دماغوں سے کب اٹھے
خاک رہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو
کیا یوں ہی آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق
سوکھے جگر کا خوں تو رواں جوئے شیر ہو
چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ
جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو
اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف
کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی سریر ہو
یاں برگ گل اڑاتے ہیں پرکالۂ جگر
جا عندلیب تو نہ مری ہم صفیر ہو
زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید
پھوٹا دوسار جس کے جگر میں نہ تیر ہو
کس طرح آہ خاک مذلت سے میں اٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو
حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو
ہوتے ہیں میکدے کے جواں شیخ جی برے
پھر درگزر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو
دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل
اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو
ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو
جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو
تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس
انصاف کریے کب تئیں مخلص حقیر ہو
یک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو
تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ فقیر ہو
میر تقی میر