ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے چشم دل کھول اس بھی عالم پر یاں کی اوقات خواب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے نقطۂ خال سے ترا ابرو بیت اک انتخاب کی سی ہے میں جو بولا کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے آتش غم میں دل بھنا شاید دیر سے بو کباب کی سی ہے دیکھیے ابر کی طرح اب کے میری چشم پر آب کی سی ہے میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے