ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تری صیاد گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا