Skip to content
ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے
اے جان داستاں تجھے آیا کبھی خیال
وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے
ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں
وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے
اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام و در کسی جان جہاں کے تھے
ہم کس کو دیں بھلا در و دیوار کا حساب
یہ ہم جو ہیں زمیں کے نہ تھے آسماں کے تھے
ہم سے چھنا ہے ناف پیالہ ترا میاں
گویا ازل سے ہم صف لب تشنگاں کے تھے
ہم کو حقیقتوں نے کیا ہے خراب و خوار
ہم خواب خواب اور گمان گماں کے تھے
صد یاد یاد جون وہ ہنگام دل کہ جب
ہم ایک گام کے نہ تھے پر ہفت خواں کے تھے
وہ رشتہ ہائے ذات جو برباد ہو گئے
میرے گماں کے تھے کہ تمہارے گماں کے تھے