Iztirab

Iztirab

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے

ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے 
آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے 
آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خلاؤں کا 
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے 
اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ 
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے 
کچھ بھی نہیں جو خواب کی صورت دکھائی دے 
کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کے 
ان پانیوں سے کوئی سلامت نہیں گیا 
ہے وقت اب بھی کشتیاں لے جاؤ موڑ کے 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *