ہم کو روکو نہ کوئی پینے سے درد سا اٹھ رہا ہے سینے سے ہم پئیں اور ہم کو ہوش نہ ہو ہوش آتا ہے ہم کو پینے سے زندگی موت سے بھی بد تر ہے باز آئے ہم ایسے جینے سے آپ کا حسن اک قیامت ہے پوچھئے جا کر آبگینے سے سو غموں کا علاج ہوتا ہے ایک جام شراب پینے سے لاکھ طوفان غم بھی ہار گئے قلب زاہدؔ کے اک سفینے سے