ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے عمر نے ہم سے بے وفائی کی وصل کے دن کی آرزو ہی رہی شب نہ آخر ہوئی جدائی کی اسی تقریب اس گلی میں رہے منتیں ہیں شکستہ پائی کی کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر آہ نے آہ نارسائی کی زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ کس بھروسے پر آشنائی کی