Iztirab

Iztirab

یاد

آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی 
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی 
ہر منظر جمال دکھاتی چلی گئی 
جیسے انہیں کو سامنے لاتی چلی گئی 
ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا 
ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی 
ویرانۂ حیات کے ایک ایک گوشہ میں 
جوگن کوئی ستار بجاتی چلی گئی 
دل پھنک رہا تھا آتش ضبط فراق سے 
دیپک کو مے گسار بناتی چلی گئی 
بے حرف و بے حکایت و بے ساز و بے صدا 
رگ رگ میں نغمہ بن کے سماتی چلی گئی 
جتنا ہی کچھ سکون سا آتا چلا گیا 
اتنا ہی بے قرار بناتی چلی گئی 
کیفیتوں کو ہوش سا آتا چلا گیا 
بے کیفیوں کو نیند سی آتی چلی گئی 
کیا کیا نہ حسن یار سے شکوے تھے عشق کو 
کیا کیا نہ شرمسار بناتی چلی گئی 
تفریق حسن و عشق کا جھگڑا نہیں رہا 
تمئیز قرب و بعد مٹاتی چلی گئی 
میں تشنہ کام شوق تھا پیتا چلا گیا 
وہ مست انکھڑیوں سے پلاتی چلی گئی 
اک حسن بے جہت کی فضائے بسیط میں 
اڑتی گئی مجھے بھی اڑاتی چلی گئی 
پھر میں ہوں اور عشق کی بیتابیاں جگرؔ 
.اچھا ہوا وہ نیند کی ماتی چلی گئی

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *