یقین کا اگر کوئی بھی سلسلہ نہیں رہا تو شکر کیجیے کہ اب کوئی گلا نہیں رہا نہ ہجر ہے نہ وصل ہے اب اس کو کوئی کیا کہے کہ پھول شاخ پر تو ہے مگر کھلا نہیں رہا خزانہ تم نہ پائے تو غریب جیسے ہو گئے پلک پہ اب کوئی بھی موتی جھلملا نہیں رہا بدل گئی ہے زندگی بدل گئے ہیں لوگ بھی خلوص کا جو تھا کبھی وہ اب صلا نہیں رہا جو دشمنی بخیل سے ہوئی تو اتنی خیر ہے کہ زہر اس کے پاس ہے مگر پلا نہیں رہا لہو میں جذب ہو سکا نہ علم تو یہ حال ہے کوئی سوال ذہن کو جو دے جلا نہیں رہا