یہیں کہیں کوئی آواز دے رہا تھا مجھے
چلا تو سات سمندر کا سامنا تھا مجھے
میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی
قدم قدم پہ وہ دریا پکارتا تھا مجھے
زمانے بعد ان آنکھوں میں اک سوال سا تھا
کہ ایک بار پلٹ کر تو دیکھنا تھا مجھے
یہ پاؤں رک گئے کیوں بے نشان منزل پر
یہاں سے اک نیا رستہ نکالنا تھا مجھے
یہ زندگی جو ترے نام سے عبارت تھی
اسے کچھ اور بنانا سنوارنا تھا مجھے
رفیق گردش سیارگاں سے پوچھوں گا
وہ کون تھا جو خلاؤں میں ڈھونڈتا تھا مجھے
تمام ترک مراسم کے باوجود اشفاقؔ
وہ زیر لب ہی سہی گنگنا رہا تھا مجھے
اشفاق حسین