یہ بت جو ہم نے دوبارہ بنا کے رکھا ہے اسی نے ہم کو تماشا بنا کے رکھا ہے وہ کس طرح ہمیں انعام سے نوازے گا وہ جس نے ہاتھوں کو کاسہ بنا کے رکھا ہے یہاں پہ کوئی بچانے تمہیں نہ آئے گا سمندروں نے جزیرہ بنا کے رکھا ہے تمام عمر کا حاصل ہے یہ ہنر میرا کہ میں نے شیشے کو ہیرا بنا کے رکھا ہے کسے کسے ابھی سجدہ گزار ہونا ہے امیر شہر نے کھاتا بنا کے رکھا ہے میں بچ گیا تو یقیناً یہ معجزہ ہوگا سبھی نے مجھ کو نشانہ بنا کے رکھا ہے کوئی بتا دے یہ سورج کو جا کے ہم نے بھی شجر کو دھوپ میں چھاتا بنا کے رکھا ہے