یہ جو تنہائی ہے شاید مری تنہائی نہ ہو گونجنا ہو نہ سماعت میں سکوت اور شب و روز کی نعش میری دہلیز پہ ایام نے دفنائی نہ ہو انگنت پھول ہی کھلتے ہوں اک شجر مولری کا ہو کہیں جس کے تلے یار اغیار گلے ملتے ہوں آن پہنچے ہوں خوشی کے موسم راہ تکتے ہوں مری اور مجھ تک کسی باعث یہ خبر آئی نہ ہو ہو کے خوش ہنستے ہوئے احباب تمام بھیجتے ہوں مجھے کب سے پیغام ڈھونڈتے ہوں مجھے بیتابانہ راہ تکتے ہوں مری .اور مجھ تک کسی باعث یہ خبر آئی نہ ہو
فہیمدہ ریاض