Iztirab

Iztirab

یہ جگہ اہل جنوں اب نہیں رہنے والی

یہ جگہ اہل جنوں اب نہیں رہنے والی 
فرصت عشق میسر کہاں پہلے والی 
کوئی دریا ہو کہیں جو مجھے سیراب کرے 
ایک حسرت ہے جو پوری نہیں ہونے والی 
وقت کوشش کرے میں چاہوں مگر یاد تری 
دھندلی ہو سکتی ہے دل سے نہیں مٹنے والی 
اب مرے خوابوں کی باری ہے یہی لگتا ہے 
نیند تو چھن چکی کب کی مرے حصے والی 
ان دنوں میں بھی ہوں کچھ کار جہاں میں مصروف 
بات تجھ میں بھی نہیں رہ گئی پہلے والی

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *