یہ جہاں نورد کی داستاں یہ فسانہ ڈولتے سائے کا مرے سر بریدہ خیال ہیں کہ دھواں ہے سونی سرائے کا وہ ہوا کا چپکے سے جھانکنا کسی بھولے بسرے مدار سے کہیں گھر میں شہر کی ظلمتیں کہیں چھت پہ چاند کرائے کا گل ماہ گھومتے چاک پر کف کوزہ گر سے پھسل گئی کہ بساط گردش سال و سن یہی فرق اپنے پرائے کا مرا نطق بھی ہے نگاہ بھی مری شاعری کا گواہ بھی تری دوستی کے محاذ پر وہ لرزتا عکس کنائے کا کہ اسی کے نام تک آئے تھے یہ صدا و صدق کے سلسلے وہی شخص جس نے ترے لیے کیا قتل سوچتی رائے کا