یہ حسرت ہے مروں اس میں لیے لبریز پیمانا مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے مے خانہ نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالوں کے مرے دیوان پن تک ہی رہا معمور ویرانا مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے کہ اے بیمار میرے تجھ پہ جلد آساں ہو مر جانا نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی گیا ہو میرؔ دیوانہ رہا سوداؔ سو مستانہ