یہ خاک زادے جو رہتے ہیں بے زبان پڑے اشارہ کر دیں تو سورج زمیں پہ آن پڑے سکوت زیست کو آمادۂ بغاوت کر لہو اچھال کہ کچھ زندگی میں جان پڑے ہمارے شہر کی بینائیوں پہ روتے ہیں تمام شہر کے منظر لہو لہان پڑے اٹھے ہیں ہاتھ مرے حرمت زمیں کے لیے مزا جب آئے کہ اب پاؤں آسمان پڑے کسی مکین کی آمد کے انتظار میں ہیں مرے محلے میں خالی کئی مکان پڑے