یہ طبیعت ہے تو خود آزار بن جائیں گے ہم
چارہ گر روئیں گے اور غم خوار بن جائیں گے ہم
ہم سر چاک وفا ہیں اور ترا دست ہنر
جو بنا دے گا ہمیں اے یار بن جائیں گے ہم
کیا خبر تھی اے نگار شعر تیرے عشق میں
دلبران شہر کے دل دار بن جائیں گے ہم
سخت جاں ہیں پر ہماری استواری پر نہ جا
ایسے ٹوٹیں گے ترا اقرار بن جائیں گے ہم
اور کچھ دن بیٹھنے دو کوئے جاناں میں ہمیں
رفتہ رفتہ سایۂ دیوار بن جائیں گے ہم
اس قدر آساں نہ ہوگی ہر کسی سے دوستی
آشنائی میں ترا معیار بن جائیں گے ہم
میرو غا لبکیا کہ بن پائے نہیں فیضو فرا ق
.زعم یہ تھا رو میو عطاربن جائیں گے ہم