یہ نقش ہم جو سر لوح جاں بناتے ہیں
کوئی بناتا ہے ہم خود کہاں بناتے ہیں
یہ سر یہ تال یہ لے کچھ نہیں بجز توفیق
تو پھر یہ کیا ہے کہ ہم ارمغاں بناتے ہیں
سمندر اس کا ہوا اس کی آسماں اس کا
وہ جس کے اذن سے ہم کشتیاں بناتے ہیں
زمیں کی دھوپ زمانے کی دھوپ ذہن کی دھوپ
ہم ایسی دھوپ میں بھی سائباں بناتے ہیں
خود اپنی خاک سے کرتے ہیں موج نور کشید
پھر اس سے ایک نئی کہکشاں بناتے ہیں
کہانی جب نظر آتی ہے ختم ہوتی ہوئی
وہیں سے ایک نئی داستاں بناتے ہیں
کھلی فضا میں خوش آواز طائروں کے ہجوم
مگر وہ لوگ جو تیر و سناں بناتے ہیں
پلٹ کے آئے غریب الوطن پلٹنا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ اب گھر کہاں بناتے ہیں
افتخار عارف