Iztirab

Iztirab

یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے

یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے 
وہ پھول کیا ہوئے وہ ستارے کہاں گئے 
یاران بزم جرأت رندانہ کیا ہوئی 
ان مست انکھڑیوں کے اشارے کہاں گئے 
ایک اور دور کا وہ تقاضا کدھر گیا 
امڈے ہوئے وہ ہوش کے دھارے کہاں گئے 
افتاد کیوں ہے لغزش مستانہ کیوں نہیں 
وہ عذر مے کشی کے سہارے کہاں گئے 
دوران زلزلہ جو پناہ نگاہ تھے 
لیٹے ہوئے تھے پاؤں پسارے کہاں گئے 
باندھا تھا کیا ہوا پہ وہ امید کا طلسم 
رنگینی نظر کے غبارے کہاں گئے 
اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ چکی گرد راہ کی
یارو وہ قافلے تھکے ہارے کہاں گئے 
ہر میر کارواں سے مجھے پوچھنا پڑا 
ساتھی ترے کدھر کو سدھارے کہاں گئے 
فرما گئے تھے راہ میں بیٹھ انتظار کر 
آئے نہیں پلٹ کے وہ پیارے کہاں گئے 
تم سے بھی جن کا عہد وفا استوار تھا 
اے دشمنوں وہ دوست ہمارے کہاں گئے 
کشتی نئی بنی کہ اٹھا لے گیا کوئی 
تختے جو لگ گئے تھے کنارے کہاں گئے 
اب ڈوبتوں سے پوچھتا پھرتا ہے ناخدا 
جن کو لگا چکا ہوں کنارے کہاں گئے 
بیتاب تیرے درد سے تھے چارہ گر حفیظؔ 
کیا جانیے وہ درد کے مارے کہاں گئے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *