یہ کیا مقام ہے وہ نظارے کہاں گئے وہ پھول کیا ہوئے وہ ستارے کہاں گئے یاران بزم جرأت رندانہ کیا ہوئی ان مست انکھڑیوں کے اشارے کہاں گئے ایک اور دور کا وہ تقاضا کدھر گیا امڈے ہوئے وہ ہوش کے دھارے کہاں گئے افتاد کیوں ہے لغزش مستانہ کیوں نہیں وہ عذر مے کشی کے سہارے کہاں گئے دوران زلزلہ جو پناہ نگاہ تھے لیٹے ہوئے تھے پاؤں پسارے کہاں گئے باندھا تھا کیا ہوا پہ وہ امید کا طلسم رنگینی نظر کے غبارے کہاں گئے اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ چکی گرد راہ کی یارو وہ قافلے تھکے ہارے کہاں گئے ہر میر کارواں سے مجھے پوچھنا پڑا ساتھی ترے کدھر کو سدھارے کہاں گئے فرما گئے تھے راہ میں بیٹھ انتظار کر آئے نہیں پلٹ کے وہ پیارے کہاں گئے تم سے بھی جن کا عہد وفا استوار تھا اے دشمنوں وہ دوست ہمارے کہاں گئے کشتی نئی بنی کہ اٹھا لے گیا کوئی تختے جو لگ گئے تھے کنارے کہاں گئے اب ڈوبتوں سے پوچھتا پھرتا ہے ناخدا جن کو لگا چکا ہوں کنارے کہاں گئے بیتاب تیرے درد سے تھے چارہ گر حفیظؔ کیا جانیے وہ درد کے مارے کہاں گئے
حفیظ جالندھری