یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا مجھے تو جرعۂ تلخ اور سازگار ہوا سرشک شوق کا وہ ایک قطرہ ناچیز اچھالنا تھا کہ اک بحر بے کنار ہوا ادائے عشق کی تصویر کھنچ گئی پوری وفور جوش سے یوں حسن بے قرار ہوا بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہشیار ہوا لیے پھری نگہ شوق سارے عالم میں بہت ہی جلوہ حسن آج بے قرار ہوا جہاں بھی میری نگاہوں سے ہو چلا معدوم ارے بڑا غضب اے چشم سحر کار ہوا مری نگاہوں نے جھک جھک کے کر دئیے سجدے جہاں جہاں سے تقاضائے حسن یار ہوا
اصغر گونڈوی