Aashufta Changezi
- 1956 - 1996
- Aligarh, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے
گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا جہاں لے جانا ہے لے جائے آ کر ایک
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے
سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے جو مڑ کے دیکھا تو ہو
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں سارے تماشے ختم ہوئے لوگ
آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں
آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں کس حال میں ہے ان دنوں گھر بار دیکھ لیں جب آ گئے ہیں شہر طلسمات
اتنا کیوں شرماتے ہیں
اتنا کیوں شرماتے ہیں وعدے آخر وعدے ہیں لکھا لکھایا دھو ڈالا سارے ورق پھر سادے ہیں تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا سوچ کے
تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں
تم نے لکھا ہے لکھو کیسا ہوں میں دوستوں کی بھیڑ ہے تنہا ہوں میں یاسمین و نسترن میرا پتہ خوشبوؤں کے جسم پر لکھا
جس سے مل بیٹھے لگی وہ شکل پہچانی ہوئی
جس سے مل بیٹھے لگی وہ شکل پہچانی ہوئی آج تک ہم سے یہی بس ایک نادانی ہوئی سیکڑوں پردے اٹھا لائے تھے ہم بازار
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی سڑکوں پہ اپنے خواب
گھروندے خوابوں کے سورج کے ساتھ رکھ لیتے
گھروندے خوابوں کے سورج کے ساتھ رکھ لیتے پروں میں دھوپ کے اک کالی رات رکھ لیتے ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہوگا
خبر تو دور امین خبر نہیں آئے
خبر تو دور امین خبر نہیں آئے بہت دنوں سے وہ لشکر ادھر نہیں آئے یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے جو اس سفر
Nazm
آوارہ پرچھائیاں
سارے دن کی تھکی ویران اور بے مصرف رات کو ایک عجیب مشغلہ ہاتھ آ گیا ہے اب وہ سارے شہر کی آوارہ پرچھائیوں کو
خدا کی جگہ خالی ہے
شنکر ڈمرو کا متبادل تلاش کر چکا گوپیاں اب کسی اودھو کی محتاج نہیں ٹرنک کال ان کی سمسیاؤں کا حل ہے عزرائیل ایٹم اور
واپسی
اذیت اور اس سکوں دونوں کو ہی دل کھول کے میں نے لٹایا ہے ہزاروں بار ایسا بھی ہوا ہے دوستوں کی رہنمائی میں پھرا
پر چھائیاں پکڑنے والے
ڈائری کے یہ سادہ ورق اور قلم چھین لو آئینوں کی دکانوں میں سب اپنے چہرے لیے اک برہنہ تبسم کے محتاج ہیں سرد بازار
صحیح کہہ رہے ہو
صحیح کہہ رہے ہو شکایت بجا ہے تمہاری گھنے گرد چہرے تمہارے نہیں ہیں خزاں زادے شہروں کا رخ کر رہے ہیں گلابی ہرے نیلے
طے شدہ موسم
مسافر ہوئے پھر اک اندھے سفر کے پتہ طے شدہ موسموں کا کہیں کھو گیا ہے بڑے شہر کے اک کلب میں دیوالی مناتے ہوئے
پہلا خطبہ
پھر اک جم غفیر ایک میدان میں آسماں کی طرف دیر سے تک رہا ہے امرأ القیس کی بیٹیاں شاعری کی زباں پھر سمجھنے لگیں
فریادی ماتم
خدائے لم یزل کی بارگاہ میں سر بہ سجود انا کی چوکھٹوں میں جڑے چہروں والے لوگ پیشانیوں پر گٹے ڈالنے میں مصروف ہیں آٹے
عقد نامے
آج انہوں نے اعلان کر ہی دیا دیکھو ہم نے تمہاری سب کی سب قوتوں کا فیصلہ کیا تھا قیل و قال کی گنجائش باقی
قصہ گو
وہی قصہ گو جو اک روز قصہ سناتے سناتے کسی پیاس کو یاد کرتا ہوا، اٹھ گیا تھا پھر اک روز لوگوں سے یہ بھی
شناسا آہہٹیں
ادھر کئی دنوں سے دور دور تک بھی نیند کا پتہ نہیں کسیلے کڑوے ذائقے ٹپک رہے ہیں آنکھ سے کئی پہر گزر چکے طویل
دیار خواب
دیار خواب کے ادھر مسافروں کی بستیاں نشیلی کالی بدلیاں شرابیوں کی ٹولیاں نشہ بڑھاتی دھانی دھانی چیزیاں مہکتے کنوارے جسم چلمنوں کی تیلیاں سجیلی
Sher
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں آشفتہ چنگیزی
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے آشفتہ چنگیزی
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں آشفتہ چنگیزی
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے آشفتہ چنگیزی
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا آشفتہ چنگیزی
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا سوچ کے اب پچھتاتے ہیں آشفتہ چنگیزی
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم
اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا آشفتہ چنگیزی
سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار
سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے آشفتہ چنگیزی
تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر
تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں آشفتہ چنگیزی
پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں
پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں آشفتہ چنگیزی
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے آشفتہ چنگیزی
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی
بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی آشفتہ چنگیزی