Ashfaq Hussain
- 1 January 1951
- Karachi, Sindh, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
یہ دل بھی تو ڈوبے گا سمندر میں کسی کے
یہ دل بھی تو ڈوبے گا سمندر میں کسی کے ہم بھی تو لکھے ہوں گے مقدر میں کسی کے اس دل کے بہت پاس
ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں
ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں تمہارے زخم کو پہچانتا تو میں بھی ہوں نہ جانے کون سی آنکھوں سے دیکھتے ہو
یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو
یہ زمیں چاند ستاروں کا بدل کیسے ہو سوچتا میں بھی بہت کچھ ہوں عمل کیسے ہو صورت حال بدل جاتی ہے اک لمحے میں
پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی
پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی مت پوچھئے کس موڑ پہ قسمت نکل آئی کچھ ان دنوں دل اس کا دکھا ہے تو
وہ دوست ہے اور برا نہیں ہے
وہ دوست ہے اور برا نہیں ہے بس میرے مزاج کا نہیں ہے دل میرا بھی کب تھا ایسا سادہ وہ آنکھ بھی بے خطا
سکون دل کی خاطر اک سہارا ڈھونڈتے ہیں
سکون دل کی خاطر اک سہارا ڈھونڈتے ہیں جو گردش میں نہیں ہے وہ ستارا ڈھونڈتے ہیں ابھی تو تجھ سے وابستہ ہیں پچھلے زخم
محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا
محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا چلے جائیں گے ہم لیکن سفر باقی رہے گا کسی دستک کی کانوں میں صدا آتی رہے
محبت کس سے کب ہو جائے اندازہ نہیں ہوتا
محبت کس سے کب ہو جائے اندازہ نہیں ہوتا یہ وہ گھر ہے کہ جس کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا دلوں کو درد کی تہذیب
تو اب کے عجب طرح ملا ہے
تو اب کے عجب طرح ملا ہے چہرہ تو وہی ہے دل نیا ہے سنتا ہی نہیں ہے ایک میری دل تیرے مزاج پر گیا
کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے
کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے یہ دنیا اصل میں آرام کرنے کے لیے ہے محبت اور پھر ایسی محبت جو ہے
تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے
تیرے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے میری دنیا ہے یہی مجھ کو یہیں رہنا ہے کام جو عمر رواں کا ہے اسے
محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا
محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا چلے جائیں گے ہم لیکن سفر باقی رہے گا کسی دستک کی کانوں میں صدا آتی رہے
Nazm
نیند نہیں آتی ہے
تم نے لکھا ہے نیند نہیں آتی ہے تم کو تم سے بہت ہی دور ہوں نا میں اس دھرتی سے اس دھرتی تک بیچ
زومنگ
دیکھوں جو آسماں سے تو اتنی بڑی زمیں اتنی بڑی زمین پہ چھوٹا سا ایک شہر چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال
مشکل کام
ہمیشہ کی طرح تم آج بھی اچھی ہو لیکن کل بہت اچھی تھیں اور وہ کل مری یادوں کا حصہ ہے وہی جو کل تھا
ایمان
اپنے کمزور ایمان کی پختگی کے لیے اپنے اندھے خیالات کی روشنی کے لیے اپنے بوسیدہ افکار کی تازگی کے لیے دھونس سے زور سے
ایسے نہیں ہوتا
بس اک اپنے تحفظ کے لیے دنیا کو کتنا بے تحفظ کر دیا تم نے یہ دنیا وہ نہیں جو آج سے پہلے تھی یہ
کیسے
اگر اس زندگی کو ایک پھول اور ایک خواب اور ایک تم ملتے تو پھر یہ زندگی کا کینوس رنگوں سے بھر جاتا میسر ہے
محبت
محبت عہد و پیمان وفا ہے محبت حد امکان وفا ہے محبت اک کتاب ایسی ہے جس کا ہر اک عنوان عنوان وفا ہے محبت
شناسائی
لوٹ بھی آئیں اگر اب وہ شناسا لمحے اور میں تجھ سے ملوں بھی تو دبے لفظوں میں پوچھیں گے سبھی کن ستاروں کی گزر
Sher
ہر ملاقات ادھوری رہی اس الجھن میں
ہر ملاقات ادھوری رہی اس الجھن میں یعنی اظہار محبت میں پہل کیسے ہو اشفاق حسین
اب اس کے بنا یوں ہیں شب و روز ہمارے
اب اس کے بنا یوں ہیں شب و روز ہمارے جیسے کوئی دروازہ نہ ہو گھر میں کسی کے اشفاق حسین
میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی
میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی قدم قدم پہ وہ دریا پکارتا تھا مجھے اشفاق حسین
تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے
تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تو میں بھی ہوں اشفاق حسین
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے اشفاق حسین
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ میں بھی تیرا ہوں مجھے بھی تو کہیں رہنا ہے اشفاق حسین
دن بھر کے جھمیلوں سے بچا لایا تھا خود کو
دن بھر کے جھمیلوں سے بچا لایا تھا خود کو شام آتے ہی اشفاقؔ میں ٹوٹا ہوا کیوں ہوں اشفاق حسین
تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر
تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر یہ کار عشق ہے اس میں لگا تو میں بھی ہوں اشفاق حسین
جو خواب کی دہلیز تلک بھی نہیں آیا
جو خواب کی دہلیز تلک بھی نہیں آیا آج اس سے ملاقات کی صورت نکل آئی اشفاق حسین
وہ ہو نہ سکا اپنا تو ہم ہو گئے اس کے
وہ ہو نہ سکا اپنا تو ہم ہو گئے اس کے اس شخص کی مرضی ہی میں ڈھالے ہوئے ہم ہیں اشفاق حسین
بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش
بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش سو یہ خواہش بھی اب نیلام کرنے کے لیے ہے اشفاق حسین
کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے
کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے اور اس سے بچھڑ جانے کا امکان ہے یوں بھی اشفاق حسین