Daya Shankar Kaul Nasim
- 1811 – 1845
- India
Introduction
Ghazal
جب ہو چکی شراب تّو میں مست مر گیا
جب ہو چکی شراب تّو میں مست مر گیا شیشے کہ خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا نے قاصد خیال نہ پیک نظر گیا اِن
اشک ٹپکے حال دِل کا کھل گیا
اشک ٹپکے حالِ دل کا کھل گیا دیدۂ گریاں سے پردہ کھل گیا دِل سے امڈے اَشک خُوں آنکھوں کی راہ جوش مے سے خم
ٹکڑے جِگر کہ آنکھ سے بارے نکل گئے
ٹکڑے جِگر کہ آنکھ سے بارے نکل گئے ارمان آج دِل کہ ہمارے نکل گئے واحسرتا کے لخت جِگر تھے جُو طفل اشک آنکھوں کہ
اِس زلف کہ خیال کا ملنا مُحال تھا
اِس زلف کہ خیال کا ملنا مُحال تھا جب تک موئے بلوں سے نکلنا مُحال تھا دیتے نہ چاٹ اگر لب شیریں کے ذکر کی
در رہا سب پہ جُو سخنور ہے
در رہا سب پہ جُو سخنور ہے شعر تیغ زباں کا جوہر ہے بات اپنی یہ سن کہ کان میں ڈال آبرو مثل آب گوہر
نام پر حرف نہ آنے دیجے
نام پر حرف نہ آنے دیجے جان اگر جائے تُو جانے دیجے یاس کی آس نہ ٹوٹے جس میں آس کو پاس نہ آنے دیجے
میں بوسہ لوں گا بہانے بتائیے نہ مُجھے
میں بوسہ لوں گا بہانے بتائیے نہ مُجھے جّو دِل لیا ہے تو قیمت دلائیے نہ مُجھے دلوں میں ٹالتے ہو دم نکل ہی جاوے
تکلف نہیں ہم سے زیبا تمہارا
تکلف نہیں ہم سے زیبا تمہارا تمہارے ہمارے ، ہمارا ، تمہارا لیا دِل تُو لو جان بھی کیوں رہے جی تمنا ہماری تقاضا تمہارا
جب نہ جیتے جی میرے کام آئے گی
جب نہ جیتے جی میرے کام آئے گی کیا یہ دنیا عاقبت بخشائے گی جب ملے دو دِل مخل پھر کُون ہے بیٹھ جاؤ خُود
دِل سے کہہ آہیں نہ ہر آن بھرے
دِل سے کہہ آہیں نہ ہر آن بھرے کچھ جگر ہو تُو دم انسان بھرے خواہشوں کو میں کروں کیا اے صبر گھر میں مفلس
خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے مثل ساغر اُور کہ کام آئیے ابر رحمت سنتے ہیں نام آپ کا خاکساروں پر کرم فرمائیے
کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے آدمی سے قصور ہوتا ہے مئے اُلفت سے پھر گیا جُو دِل صورت شیشہ چور ہوتا ہے خاک عاشق
Sher
لائے اس بت کو التجا کر کے
لائے اس بت کو التجا کر کے .کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے پنڈت دیا شنکر کول ناسم
دوزخ و جنت ہیں اب میری نظر کے سامنے
دوزخ و جنت ہیں اب میری نظر کے سامنے .گھر رقیبوں نے بنایا اس کے گھر کے سامنے پنڈت دیا شنکر کول ناسم
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے .جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے پنڈت دیا شنکر کول ناسم
جب ملے دو دل مخل پھر کون ہے
جب ملے دو دل مخل پھر کون ہے .بیٹھ جاؤ خود حیا اٹھ جائے گی پنڈت دیا شنکر کول ناسم
کوچہ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ
کوچہ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ .بند کیں آنکھیں تو رستہ کھل گیا پنڈت دیا شنکر کول ناسم
جو دن کو نکلو تو خورشید گرد سر گھومے
جو دن کو نکلو تو خورشید گرد سر گھومے .چلو جو شب کو تو قدموں پہ ماہتاب گرے پنڈت دیا شنکر کول ناسم
معنی روشن جو ہوں تو سو سے بہتر ایک شعر
معنی روشن جو ہوں تو سو سے بہتر ایک شعر .مطلع خورشید کافی ہے پئے دیوان صبح پنڈت دیا شنکر کول ناسم
صبح دم غائب ہوئے انجم تو ثابت ہو گیا
صبح دم غائب ہوئے انجمؔ تو ثابت ہو گیا .خندہ بیہودہ پر توڑے گئے دندان صبح پنڈت دیا شنکر کول ناسم
سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص
سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص .یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا پنڈت دیا شنکر کول ناسم
بتوں کی گلی چھوڑ کر کون جائے
بتوں کی گلی چھوڑ کر کون جائے .یہیں سے ہے کعبہ کو سجدہ ہمارا پنڈت دیا شنکر کول ناسم
جنوں کی چاک زنی نے اثر کیا واں بھی
جنوں کی چاک زنی نے اثر کیا واں بھی .جو خط میں حال لکھا تھا وہ خط کا حال ہوا پنڈت دیا شنکر کول ناسم
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی .کیا یہ دنیا عاقبت بخشوائے گی پنڈت دیا شنکر کول ناسم
Masnavi
گلزار نسیم
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری ثمرہ ہے قلم کا حمد باری کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر حمد حق و مدحت پیمبر پانچ