Ghulam Hamdani Mushafi
- 1751–1844
- Amroha, India
Introduction
Ghazal
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا میرے پہلو میں رات جا کر وہ ماہ تھا یا ہلال
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے اس کے کوچے میں ہے نت صورت بیداد
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا مجھ سا تو کوئی بندۂ فرماں نہ ملے گا ہوں منتظر لطف کھڑا کب سے ادھر
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے آپ حلال میں ہوتا ہوں ان لوگوں کو قربانی ہے نطق زباں گر ہوتا
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ مجھ تک خدا کے واسطے ظالم شتاب آ دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
غم دل کا بیان چھوڑ گئے ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے تری دہشت سے باغ میں صیاد مرغ سب آشیان چھوڑ گئے راہ میں
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو آ کر کے
آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل نوک نشتر ہو تو ہاں قابل تحریک ہے دل اے فلک تجھ کو قسم ہے
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
رخ زلف میں بے نقاب دیکھا میں تیرہ شب آفتاب دیکھا محروم ہے نامہ دار دنیا پانی سے تہی حباب دیکھا سرخی سے ترے لبوں
Sher
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے شیخ غلام ہمدانی مصحفی
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا شیخ غلام ہمدانی مصحفی
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو شیخ غلام ہمدانی مصحفی
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر شیخ غلام ہمدانی مصحفی
اے مصحفی تو ان سے محبت نہ کیجیو
اے مصحفیؔ تو ان سے محبت نہ کیجیو ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں شیخ غلام ہمدانی مصحفی
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں شیخ غلام ہمدانی مصحفی
عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس
عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس شیخ غلام ہمدانی مصحفی
آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا
آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے شیخ غلام ہمدانی مصحفی
اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ
اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے شیخ غلام ہمدانی مصحفی
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے
حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے شیخ غلام ہمدانی مصحفی
کسی کے ہاتھ تو لگتا نہیں ہے اک عیار
کسی کے ہاتھ تو لگتا نہیں ہے اک عیار کہاں تلک ترے پیچھے کوئی خراب پھرے شیخ غلام ہمدانی مصحفی
مصحفی کیونکہ چھپے ان سے مرا درد نہاں
مصحفیؔ کیونکہ چھپے ان سے مرا درد نہاں یار تو بات کے انداز سے پا جاتے ہیں شیخ غلام ہمدانی مصحفی
Naat
حنا سے ہے یہ تری سرخ اے نگار انگشت
حنا سے ہے یہ تری سرخ اے نگار انگشت کہ ہو نہ پنجۂ مرجاں کی زینہار انگشت ہلال و بدر ہوں یکجا عرق فشانی کو