آج کل بے قرار ہیں ہم بھی بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی منا گریہ نہ کر تو اے ناصح اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی درپئے جان ہے قراول مرگ کسو کے تو شکار ہیں ہم بھی نالے کریو سمجھ کے اے بلبل باغ میں یک کنار ہیں ہم بھی مدعی کو شراب ہم کو زہر عاقبت دوست دار ہیں ہم بھی مضطرب گریہ ناک ہے یہ گل برق ابر بہار ہیں ہم بھی گر زخود رفتہ ہیں ترے نزدیک اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی میرؔ نام اک جواں سنا ہوگا اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی