Mirza Salaamat Ali Dabeer
- 29 August 1803 – 6 March 1875
- Dehli, India
Introduction
Marsiya
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی
1 پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی پنہاں درازیٔ پر طاؤس شب ہوئی اور قطع زلف لیلی زہرہ لقب ہوئی مجنوں صفت قبائے سحر
روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا
1 روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا دل صر صر فنا سے بجھا اہل شام کا اندھیر کچھ گھٹا فلک نیلی فام کا
بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے
بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے مریم درود خواں ہے یہ کس کی جناب ہے شان خدا عیاں ہے یہ کس کی جناب
جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب
1 جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان شب تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب تانی نہ پھر شعاع
Rubai
فرمان علی لوح و قلم تک پہنچا
فرمان علی لوح و قلم تک پہنچا فضل ان کا ہر ایک غم میں ہم تک پہنچا ہاتھ اس کے لگا پارس ایماں سر دست
مشہور جہاں ہے داستان شیریں
مشہور جہاں ہے داستان شیریں شیریں نے فدا کی شہ پہ جان شیریں شبیر کی ہے وعدہ وفائی کا بیاں گویا مرے منہ میں ہے
کیا قامت احمد نے ضیا پائی ہے
کیا قامت احمد نے ضیا پائی ہے چہرے میں عجب نور کی زیبائی ہے مصحف پہ نہ کیوں فخر ہو اس صورت کو قرآن سے
پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے
پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب جس
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے پھر تازہ مری مرثیہ خوانی ہو جائے فضل باری سے ہوں یہ آنسو جاری ساون کی گھٹا
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے غل رعد کا نالوں کی زبانی ہو جائے اشکوں سے جھڑی لگے وہ شہ کے غم کی ساون
صغری کا مرض کم نہ ہوا درماں سے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ
پھر چرخ پر آسمان پیر آیا ہے
پھر چرخ پر آسمان پیر آیا ہے ہر کوچہ میں وقت دار و گیر آیا ہے اگلا سا نہ مجمع ہے نہ اگلے سے وہ
ہم شان نجف نہ عرش انور ٹھہرا
ہم شان نجف نہ عرش انور ٹھہرا میزان میں یہ بھاری وہ سبک تر ٹھہرا اس پلے میں تھا نجف اور اس پلے میں عرش
ادنی سے جو سر جھکائے اعلی وہ ہے
ادنی سے جو سر جھکائے اعلی وہ ہے جو خلق سے بہرہ ور ہے دریا وہ ہے کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ
یا شاہ نجف تھام لو اس کشور کو
یا شاہ نجف تھام لو اس کشور کو آباد رکھو اہل عزا کے گھر کو یوں کھودو مخالف کے عمل کی بنیاد جس طرح اکھاڑا
اس بزم میں ارباب شعور آئے ہیں
اس بزم میں ارباب شعور آئے ہیں یہ شیعہ ہیں یا آیۂ نور آئے ہیں پڑھ مرثیہ لے داد سخن ان سے دبیرؔ کیا کیا
Sher
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر فتنے نے کیا خواب گلے کفر سے مل کر مرزا سلامت علی دبیر
چمکا کے مہ وحور زر و نقرہ کے عصا کو
چمکا کے مہ وحور زر و نقرہ کے عصا کو سرکاتے ہیں پیر فلک پشت دو تا کو مرزا سلامت علی دبیر
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے جریخت یزید اب کوئی گردش میں نہیں ہے مرزا سلامت علی دبیر
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا مرزا سلامت علی دبیر
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے مرزا سلامت علی دبیر
دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے
دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے مرزا سلامت علی دبیر