Mirza Muhammad Rafi Sauda
- 1713–1781
- Dehli, India
Introduction
Ghazal
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے دو دن میں ہم تو ریجھے اے
وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں
وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں آیا تھا کیوں عدم میں کیا کر چلا جہاں میں
عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں
عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں دو چار گھڑی رونا دو چار گھڑی باتیں قرباں ہوں مجھے جس دم یاد آتی ہیں
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا رخصت ہے باغباں کہ تنک دیکھ
جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں
ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست اس دور میں گئی ہے مروت کی آنکھ پھوٹ
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں نہ دیکھا جو کچھ جام میں جم نے اپنے سو یک
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا ہم نے اسے ہر خار بیابان میں دیکھا روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا جس
گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں
گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں تم جن کی ثنا کرتے ہو
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا
اپنے کا ہے گناہ بیگانے نے کیا کیا اس دل کو کیا کہوں کہ دوانے نے کیا کیا یاں تک ستانا مج کو کہ رو
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا پردے میں تھا آفتاب دیکھا کیوں کر نہ بکوں میں ہاتھ اس کے یوسف کی طرح میں خواب دیکھا
Sher
کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا
کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں مرزا محمد رفیع سودا
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں مرزا محمد رفیع سودا
فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں
فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے مرزا محمد رفیع سودا
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی مرزا محمد رفیع سودا
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے مرزا محمد رفیع سودا
دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ
دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا مرزا محمد رفیع سودا
لیتے ہیں چھین کر دل عاشق کا پل میں دیکھو
لیتے ہیں چھین کر دل عاشق کا پل میں دیکھو خوباں کی عاشقوں پر کیا پیش دستیاں ہیں مرزا محمد رفیع سودا
دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا
دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسب حال باندھے مرزا محمد رفیع سودا
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے مرزا محمد رفیع سودا
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا مرزا محمد رفیع سودا
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط
سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط تیرا نہیں ہے جرم ہمارا گماں غلط مرزا محمد رفیع سودا
میں نے تم کو دل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا
میں نے تم کو دل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا
Rubai
گر یار کے سامنے میں رویا تو کیا
گر یار کے سامنے میں رویا تو کیا مژگاں میں جو لخت دل پرویا تو کیا یہ دانۂ اشک سبز ہونا معلوم اس شور زمیں
سودا شعر میں ہے بڑائی تجھ کو
سوداؔ شعر میں ہے بڑائی تجھ کو تشریف سخن عرش سے آئی تجھ کو عالم تجھے اس فن میں پیمبر سمجھا پوجا جہلا نے بخدائی
اے شیخ حرم تک تجھے آنا جانا
اے شیخ حرم تک تجھے آنا جانا یہ طوف جلاہے کاہے تانا بانا پہچانے گا واں کیا اسے حیراں ہوں میں جس کو حرم دل
کوتاہ نہ عمر مے پرستی کیجے
کوتاہ نہ عمر مے پرستی کیجے زلفوں سے تری دراز دستی کیجے ساقی نہ ہو جو شراب ہے آج وہ ابر پانی پی پی کے
Qasida
نعت حضرت رسالت علیہ السلام
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی نہ ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی ہنر پیدا کر اول ترک کیجو تب لباس اپنا نہ
Paheli
چاقو
بہت کام کا ہے اک نر آدھے دھڑ میں اس کا گھر کبڑا ہو کر گھر میں بیٹھے کام کرے نہیں ٹھالا بیٹھے مرزا محمد
خرگوش
خر آگے اور پیچھے کان جو بوجھے سو چتر سجان مرزا محمد رفیع سودا
سایہ
عجب طرح کی ہے اک نار اس کا کیا میں کروں بچار وہ دن ڈوبے پی کے سنگ لاگے رہے نسوا کے رنگ دیا برے