Saadat Yaar Khan Rangin
- 1757–1835
- Sirhind, India
Introduction
Ghazal
تجھ کو آتی ہے دلاسے کی نہیں بات کوئی
تجھ کو آتی ہے دلاسے کی نہیں بات کوئی کس طرح تجھ سے رکھے جان ملاقات کوئی لگ چلے تجھ سے وہ کھانی ہو جسے
چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے
چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے دوست دشمن ہو گئے اور اپنے بیگانے ہوئے پھر نئے سر سے یہ جی میں
اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے
اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے ان میں دیکھا تو میاں رنگیںؔ نہ پہچانے پڑے میں سفر میں ہوں اور اس کو
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں میں تو جا سکتا ہوں واں گر یاں وہ آ سکتے نہیں شرم ہے ان
تا حشر رہے یہ داغ دل کا
تا حشر رہے یہ داغ دل کا یارب نہ بجھے چراغ دل کا ہم سے بھی تنک مزاج ہے یہ پاتے ہی نہیں دماغ دل
غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے آ کے میرے روبرو تلوار چمکانے لگے جی میں کیا گزرا تھا کل جو آپ رکھ
عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم
عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم ہے یہ موجود جدھر جائیں گے ہم تن کے بس رکھئے قبضہ پر ہاتھ دیکھیے مفت میں
ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر
ہم جوں چکور غش ہیں اجی ایک یار پر بلبل کی طرح جی نہیں دیتے ہزار پر گر جی میں کچھ نہیں ہے تو دیکھے
میری ایذا میں خوشی جب آپ کی پاتے ہیں لوگ
میری ایذا میں خوشی جب آپ کی پاتے ہیں لوگ تو مجھے کس کس طرح سے آ کے دھمکاتے ہیں لوگ ہاتھ کیا آتا ہے
پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں
پھر بہار آئی مرے صیاد کو پروا نہیں اڑ کے میں پہنچوں چمن میں کیا کروں پر وا نہیں جی جلا کر ایک بوسہ مانگتے
Rekhti
ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی
ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی مت ستا مجھ کو دوگانا ترے قربان گئی تجھ سے جب تک نہ ملی تھی مجھے کچھ
کس سے گرمی کا رکھا جائے یہ بھاری روزہ
کس سے گرمی کا رکھا جائے یہ بھاری روزہ سردی ہووے تو رکھے مجھ سی بچاری روزہ دیکھ پنسورے میں تاریخ بتا دے مجھ کو
جدا اس سے بھلا کب تک رہوں میں
جدا اس سے بھلا کب تک رہوں میں بری اس سے بھلا کب تک رہوں میں طبیعت چاہتی ہے اس کو میری کھنچی اس سے
کشتی میں کپی تیل کی انا انڈیل ڈال
کشتی میں کپی تیل کی انا انڈیل ڈال سوکھے ہیں بال آ کے مرے سر میں تیل ڈال یا رب شب جدائی تو ہرگز نہ
میں تو کچھ کہتی نہیں شوق سے سو باری چیخ
میں تو کچھ کہتی نہیں شوق سے سو باری چیخ نام لے کر مری دائی کا ددا ماری چیخ اڑ گئے مغز کے کیڑے تو
رشتہ الفت کو توڑوں کس طرح
رشتہ الفت کو توڑوں کس طرح عشق سے میں منہ کو موڑوں کس طرح پونچھنے سے اشک کے فرصت نہیں آستیں کو میں نچوڑوں کس
کروں میں کہاں تک مدارات روز
کروں میں کہاں تک مدارات روز تمہیں چاہیئے ہے وہی بات روز مجھے گھر کے لوگوں کا ڈر ہے کمال کروں کس طرح سے ملاقات
یہ میرے یار نے کیا مجھ سے بے وفائی کی
یہ میرے یار نے کیا مجھ سے بے وفائی کی ملے نہ پھر کبھی جس دن سے آشنائی کی اب اس کے عشق نے کیا
نیند آتی نہیں کم بخت دوانی آ جا
نیند آتی نہیں کم بخت دوانی آ جا اپنی بیتی کوئی کہہ آج کہانی آ جا ہاتھ پر تیرے موئے کس کے ہے چھلے کا
اب میری دوگانا کو مرا دھیان ہے کیا خاک
اب میری دوگانا کو مرا دھیان ہے کیا خاک انسان کی انا اسے پہچان ہے کیا خاک ملتی نہیں وہ مجھ کو تمہیں اب تو
میرے گھر میں زناخی آئی کب
میرے گھر میں زناخی آئی کب میں نگوڑی بھلا نہائی کب صبر میرا سمیٹتی ہے وہ شب کو بولی تھی چارپائی کب کل زناخی تھی
میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے
میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے میں نے سمجھ لیا تو دوگانا گھنور ہے اتنا بڑا ہے منہ اک آتوں کی
Sher
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ناؤ کاغذ کی کہیں چلتی نہیں سادات یار خان رنگین
وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگیںؔ
وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگیںؔ اس میں کیا تیری شان جاتی ہے سادات یار خان رنگین
منع کرتے ہو عبث یارو آج
منع کرتے ہو عبث یارو آج اس کے گھر جائیں گے پر جائیں گے ہم سادات یار خان رنگین
بادل آئے ہیں گھر گلال کے لال
بادل آئے ہیں گھر گلال کے لال کچھ کسی کا نہیں کسی کو خیال سادات یار خان رنگین
جھوٹا کبھی نہ جھوٹا ہووے
جھوٹا کبھی نہ جھوٹا ہووے جھوٹے کے آگے سچا رووے سادات یار خان رنگین
تھا جہاں مے خانہ برپا اس جگہ مسجد بنی
تھا جہاں مے خانہ برپا اس جگہ مسجد بنی ٹوٹ کر مسجد کو پھر دیکھا تو بت خانے ہوئے سادات یار خان رنگین
ہے یہ دنیا جائے عبرت خاک سے انسان کی
ہے یہ دنیا جائے عبرت خاک سے انسان کی بن گئے کتنے سبو کتنے ہی پیمانے ہوئے سادات یار خان رنگین
غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے
غیر کی خاطر سے تم یاروں کو دھمکانے لگے آ کے میرے روبرو تلوار چمکانے لگے سادات یار خان رنگین
جل کے رنگیںؔ میں نے یہ مصرع تجلیؔ کا پڑھا
جل کے رنگیںؔ میں نے یہ مصرع تجلیؔ کا پڑھا دل کو سمجھاؤ مجھے کیا آ کے سمجھانے لگے سادات یار خان رنگین
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں میں تو جا سکتا ہوں واں گر یاں وہ آ سکتے نہیں سادات یار خان
عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم
عشق سے بچ کے کدھر جائیں گے ہم ہے یہ موجود جدھر جائیں گے ہم سادات یار خان رنگین
دم کہیں لیں گے نہ پھر تا بہ عدم
دم کہیں لیں گے نہ پھر تا بہ عدم تیرے کوچہ سے اگر جائیں گے ہم سادات یار خان رنگین