Satyapal Anand
- 24 April 1931
- Kot Sarang, District Chakwal, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Nazm
باد خزاں کو کیا پروا ہے
اکتوبر ہے کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں باہر سارے پیڑ دریدہ
سانپ کو مت جگا
سانپ سویا ہوا ہے بڑی دیر سے سردیوں کی اندھیری پٹاری میں کنڈل سا لپٹا ہوا اپنی اکلوتی بند آنکھ کھولے ہوئے پچھلی رت کے
فَتَکلّمُواَ تُعرَفُوا
طبیب بھنبھنا گیا میں سب علاج کر کے تھک گیا ہوں پر یہ بچہ بولتا نہیں زبان اس کی تندرست ہے کہیں بھی کوئی رخنہ،
انّا للٰہ و انّا الیہ راجعون
ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا اپنے کندھوں پر اٹھائے آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی
خون کی خوشبو
خون کی خوشبو اڑی تو خودکشی چیخی کہ میں ہی زندگی ہوں آؤ اب اس وصل کی ساعت کو چومو مر گئی تھی جیتے جی
آدھا ادھورا شخص
ہمارا روز کا معمول تھا، سونے سے پہلے باتیں کرنے اور جھگڑنے کا گلے شکوے کہ جن میں اگلی پچھلی ساری باتیں یاد کر کے
وصال
میں نے کل شب آسماں کو گرتے دیکھا اور سوچا اب زمیں اور آسماں شاید ملیں گے رات گزری اور شفق پھولی تو میں نے
آخری کوس
آخری کوس مجھے آج ہی طے کرنا ہے اور اس لمبے سفر کا یہ کڑا کوس مجھے اس قدر لمبا بڑھانا ہے کہ اب سے
شہر گم صم
بلڈنگیں ذیشان اونچی شاہراہوں کے کناروں پر کھڑی تھیں شاہراہیں آتی جاتی گاڑیوں کاروں سے پر تھیں قہوہ خانوں پارکوں گلیوں محلوں اور گھروں میں
کرونا وائرس کے بعد
وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے دیکھتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے محبت سے
آزمائش شرط تھی
زندہ رہنا سیکھ کر بھی میں نے شاید زندگی کو درد تہہ تک پی کے جینے کی کبھی کوشش نہیں کی! پیاس تھی پانی نہیں
اگلا سفر طویل نہیں
وہ دن بھی آئے ہیں اس کی سیاہ زلفوں میں کپاس کھلنے لگی ہے، جھلکتی چاندی کے کشیدہ تار چمکنے لگے ہیں بالوں میں وہ
Article
راجندر سنگھ بیدی کی کچھ یادیں
راجندر سنگھ بیدی کے چھوٹے بھائی سردار ہربنس سنگھ آج کل ٹرائی سٹیٹ واشنگٹن ڈی سی کے اسی علاقے میں رہتے ہیں جہاں میں اقامت