Abbas Tabish
- 15 June 1961
- Lahore, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت لیکن
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں اس لیے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا جو
پاؤں پڑتا ہوا رستہ نہیں دیکھا جاتا
پاؤں پڑتا ہوا رستہ نہیں دیکھا جاتا جانے والے ترا جانا نہیں دیکھا جاتا تیری مرضی ہے جدھر انگلی پکڑ کر لے جا مجھ سے
جو بھی من جملۂ اشجار نہیں ہو سکتا
جو بھی من جملۂ اشجار نہیں ہو سکتا کچھ بھی ہو جائے مرا یار نہیں ہو سکتا اک محبت تو کئی بار بھی ہو سکتی
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتا ہے
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتا ہے میری تعمیر میں پتھر بھی تو ہو سکتا ہے کیوں نہ اے شخص تجھے ہاتھ
عجیب طور کی ہے اب کے سرگرانی مری
عجیب طور کی ہے اب کے سرگرانی مری میں تجھ کو یاد بھی کر لوں تو مہربانی مری میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے اے مرے دشت مزاجو یہ مری آنکھیں
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے یہ کس نے صحرا میں لا کر صحرا چھوڑ دیا ہے جسم کی بوری
تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں
تیرے لیے سب چھوڑ کے تیرا نہ رہا میں دنیا بھی گئی عشق میں تجھ سے بھی گیا میں اک سوچ میں گم ہوں تری
Nazm
وہ ہنستی ہے تو اس کے ہاتھ روتے ہیں
کسی کے بعد اپنے ہاتھوں کی بد صورتی میں کھو گئی ہے وہ مجھے کہتی ہے تابشؔ! تم نے دیکھا میرے ہاتھوں کو برے ہیں
ابھی اس کی ضرورت تھی
صف ماتم بچھی ہے سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو یہ کیسی چپ لگا دی ہے
اسے میں نے نہیں دیکھا
وہ کیسی ہے اسے میں نے نہیں دیکھا سنا ہے وہ زمیں زادی دھنک سے اپنے خوابوں کے افق گل رنگ رکھتی ہے مرے خاشاک
ادھوری نظم
اندھیری شام کے ساتھی ادھوری نظم سے زور آزما ہیں بر سر کاغذ بچھڑنے کی سنو ۔تم سے دل محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
پروں میں شام ڈھلتی ہے
کہاں جانا تھا مجھ کو کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چننا تھی کہاں خیمہ لگانا تھا مری
اندیشۂ وصال کی ایک نظم
شفق کے پھول تھالی میں سجائے سانولی آئی چراغوں سے لویں کھینچیں دریچوں میں نمی آئی میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی ہوا
مجھے رستہ نہیں ملتا
مجھے رستہ نہیں ملتا میں جوہڑ میں کھلے پھولوں کے حق میں بول کر دلدل کی تہہ میں دھنس گیا ہوں میں نہیں کہتا کہ
پاگل
وہ آیا شہر کی طرف اک اس کی چاپ کی کھنک قیام روز عشق کی پکار تھی کہ برگ و بار خاک کا فشار تھی
Sher
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے عباس تابش
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں عباس تابش
جس سے پوچھیں ترے بارے میں یہی کہتا ہے
جس سے پوچھیں ترے بارے میں یہی کہتا ہے خوب صورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا عباس تابش
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو عباس تابش
مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت
مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے عباس تابش
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے عباس تابش
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا عباس تابش
شب کی شب کوئی نہ شرمندۂ رخصت ٹھہرے
شب کی شب کوئی نہ شرمندۂ رخصت ٹھہرے جانے والوں کے لیے شمعیں بجھا دی جائیں عباس تابش
محبت ایک دم دکھ کا مداوا کر نہیں دیتی
محبت ایک دم دکھ کا مداوا کر نہیں دیتی یہ تتلی بیٹھتی ہے زخم پر آہستہ آہستہ عباس تابش
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے عباس تابش
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے عباس تابش
یہ زندگی کچھ بھی ہو مگر اپنے لئے تو
یہ زندگی کچھ بھی ہو مگر اپنے لئے تو کچھ بھی نہیں بچوں کی شرارت کے علاوہ عباس تابش
Qita
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو پہلے تو اس نے غم کے