Shakeb Jalali
- 1 October 1934-12 November 1966
- Jalal, Aligarh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں پہنچا جو
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام
کوئی اس دل کا حال کیا جانے
کوئی اس دل کا حال کیا جانے ایک خواہش ہزار تہہ خانے موت نے آج خودکشی کر لی زیست پر کیا بنی خدا جانے پھر
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا رہ تو گئی فریب مسیحا کی
ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر تصویر
آگ کے درمیان سے نکلا
آگ کے درمیان سے نکلا میں بھی کس امتحان سے نکلا پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے پھر دھواں گلستان سے نکلا جب بھی نکلا
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر آج تک اس کے تعاقب میں بگولے ہیں رواں
مریض غم کے سہارو کوئی تو بات کرو
مریض غم کے سہارو کوئی تو بات کرو اداس چاند ستارو کوئی تو بات کرو کہاں ہے ڈوب چکا اب تو ڈوبنے والا شکستہ دل
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں
دشت و صحرا اگر بسائے ہیں ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں آپ نغموں کے منتظر ہوں گے ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں
Nazm
مجرم
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
جشن عید
سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں کسی نے پھول پروئے کسی نے خار چنے بنام اذن تکلم بنام جبر سکوت کسی نے ہونٹ چبائے
ساتھی
میں اس کو پانا بھی چاہوں تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے وہ آگے آگے تیز خرام میں اس کے پیچھے پیچھے افتاں خیزاں
پاداش
کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو تمہیں کیا خبر ہے وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو سجل پانیوں نے ملائم
مبارک وہ ساعت
میں بھٹکا ہوا اک مسافر رہ و رسم منزل سے ناآشنائی پہ نازاں تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا میرے جسم کا بوجھ
کالا پتھر
میرا چہرہ آئینہ ہے آئینے پر داغ جو ہوتے لہو کی برکھا سے میں دھوتا اپنے اندر جھانک کے دیکھو دل کے پتھر میں کالک
اندمال
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں باد مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپرد خزاں کر دیے بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی
انفرادیت پرست
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے زندگی سے اسے نسبت کیا ہے آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے موج بپھرے تو بہا لے جائے ایک
یاد
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر آئنہ گر کے پاش پاش ہوا اور ننھی نکیلی کرچوں کی ایک بوچھاڑ دل
دعوت فکر
کس طرح ریت کے سمندر میں کشتیٔ زیست ہے رواں سوچو پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے آئنہ ساز کی دکاں سوچو سن کے باد
گریزپا
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے چاندنی کی پتیاں بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں ملتے ملتے رہ
رات کے پچھلے پہر
شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند اور ہوا چلتی تھی جیسے اس کے زخمی ہوں قدم دیدۂ مہر نے
Sher
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
شکر ہے اس نے بے وفائی کی میں کڑے امتحان سے نکلا شکیب جلالی
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا شکیب جلالی
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر شکیب جلالی
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں شکیب جلالی
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا شکیب جلالی
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں شکیب جلالی
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے شکیب جلالی
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ شکیب جلالی
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں شکیب جلالی
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے شکیب جلالی
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے شکیب جلالی
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے شکیب جلالی