Jigar Moradabadi
- 6 April 1890 – 9 September 1960
- Moradabad, India
Introduction
جگر کو اپنے والد علی نذر سے شاعری وراثت میں ملی, جو خود ایک شاعر تھا اس سے پہلے کہ وہ داغ دہلوی جیسے بڑے شاعروں سے رہنمائی حاصل کرتا جس کے ساتھ وہ ایک دوست اور معاون کی حیثیت سے رہتا تھا. وہ حساس رومانوی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہوئے اور ایک ایسا شاعر بنا جس نے اپنے موضوعاتی انتخاب کی خدمت کی اور اپنی شاعری کو قطعی شناخت دی. انہوں نے ایک مشہور شاعر کی حیثیت سے سامعین سے بڑی داد وصول کی. وہ بنیادی طور پر اپنے غزلوں کے لئے جانا جاتا ہے جس نے محبت اور شراب کے موضوعات کو ایک منفرد موسیقی کے ذریعہ بیان کیا۔ انہوں نے اپنا پہلا مجموعہ داغ-ای-جگر 1928 میں شائع کیا جس کے بعد 1932 میں شولا-ای-طور شائع کیا۔ ان کا تیسرا مجموعہ آتش-ای۔گل جو 1954 میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ بعد شائع کیا گیا تھا۔ انہوں نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا. اعلی جدید شاعروں کے آنے سے پہلے جگر نے غزلوں کے ستون میں سے ایک کی حیثیت سے اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے۔
Ghazal
آدمی آدمی سے ملتا ہے
آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے وہ کچھ اس سادگی سے ملتا
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے جو
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانا ہے
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانا ہے سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں بے فائدہ الم نہیں بے کار غم
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں یہ تو نے کہا کیا اے
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں آ کہ تجھ بن اس طرح
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ
Nazm
یاد
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی ہر منظر جمال دکھاتی چلی گئی جیسے انہیں کو
شکست توبہ
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے
تصویر و تصور
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ
نرگس مستانہ
اپنا ہی سا اے نرگس مستانہ بنا دے میں جب تجھے جانوں مجھے دیوانہ بنا دے ہر قید سے ہر رسم سے بیگانہ بنا دے
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر پھر اسی خاک سے فردوس بریں پیدا کر یہی دنیا کہ جو بت خانہ بنی جاتی ہے
قحط بنگال
بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سر راہ
گاندھی جی کی یاد میں
وہی ہے شور ہائے و ہو وہی ہجوم مرد و زن مگر وہ حسن زندگی مگر وہ جنت وطن وہی زمیں، وہیں زماں وہی مکیں،
Sher
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانا ہے
اِک لفظ محُبت کا ادنی یہ فسانا ہے سمٹے تُو دِل عاشق پھیلے تُو زمانہ ہے جگر مراد آبادی
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
یہ عِشق نہیں آساں اِتنا ہی سمجھ لیجے اِک آگ کا دریا ہے، اُور ڈوب کہ جانا ہے جگر مراد آبادی
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دَم نہیں ہم سے زمانہ خُود ہے، زمانے سے ہم نہیں جگر مراد آبادی
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ ہے مے کدہ یہاں رِند ہیں، یہاں سب کا ساقی امام ہے یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی، یہاں پارسائی حرام ہے جگر
دل میں کسی کہ راہ کئے جا رہا ہوں میں
دِل میں کسی کہ راہ کئے جا رہا ہوں میں کِتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں جگر مراد آبادی
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
جُو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں وہی دُنیا بدلتے جا رہے ہیں جگر مراد آبادی
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
ہم نے سینے سے لگایا دِل نہ اپنا بن سکا مُسکرا کر تُم نے دیکھا دِل تمہارا ہو گیا جگر مراد آبادی
تری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
تری آنکھوں کا کچھ قُصور نہیں ہاں مُجھی کو خراب ہونا تھا جگر مراد آبادی
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
تیرے جمال کی تصویر کھینچ دُوں لیکن زبان میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں جگر مراد آبادی
اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا
اتنے حجابوں پر تُو یہ عالم ہے حُسن کا کیا حال ہو جُو دیکھ لیں پردہ اُٹھا کہ ہم جگر مراد آبادی
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
اُن کا جُو فرض ہے وُہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام مُحبت ہے جہاں تک پہنچے جگر مراد آبادی
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دِل ہم وُہ نہیں کے جن کو زمانہ بنا گیا جگر مراد آبادی
Naat
اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ
اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہ تو صبح ازل آئینہ حسن ازل بھی اے صل علیٰ صورت سلطان
Qisse
رند سے مولوی
ایک بار جوشؔ ملیح آبادی نے جگرؔ صاحب کو چھیڑتے ہوئے کہا ’’کیا عبرتناک حالت ہے آپ کی شراب نے آپ کو رند سے مولوی
کسی بلبل کا دل جلا ہو گا
ایک بار مشاعرہ ہورہا تھا۔ ایک مسلم الثبوت استاد اٹھے اور انہوں نے طرح کاایک مصرعہ دیا، ’’آرہی ہے چمن سے بوئے کباب‘‘ بڑے بڑے
آتش گل نہیں تو شعلہ طور
گونڈہ کے ایک مشاعرہ میں جگر مرادآبادی کے ساتھ اسٹیج پر اور بہت سے شاعر بیٹھے ہوئے تھے۔ جگرؔ صاحب کے نئے مجموعے ’’شعلۂ طور‘‘
شعر کی خامی
جگر مرادآبادی کے کسی شعر کی تعریف کرتے ہوئے کسی منچلے نے ان سے کہا ’’حضرت! اس غزل کے فلاں شعر کو میں نے لڑکیوں
جگر صاحب یہ مسجد نہیں ریسٹورنٹ ہے
ایک بار جگرؔ، شوکتؔ تھانوی اور مجروحؔ سلطانپوری دوپہر کے وقت کہیں کام کے لیے باہر نکلے تھے تو ارادہ کیاگیا کہ نماز ادا کی