Adil Mansuri
- 18 May 1936-6 November 2008
- Ahmedabad, Gujarat, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں
مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا گھونگھٹ میں مرے خواب کی تعبیر چھپی تھی مہندی
عاشق تھے شہر میں جو پرانے شراب کے
عاشق تھے شہر میں جو پرانے شراب کے ہیں ان کے دل میں وسوسے اب احتساب کے وہ جو تمہارے ہاتھ سے آ کر نکل
ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا نفرت کا ریگزار مگر درمیان تھا لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں جھپکی
بدن پر نئی فصل آنے لگی
بدن پر نئی فصل آنے لگی ہوا دل میں خواہش جگانے لگی کوئی خودکشی کی طرف چل دیا اداسی کی محنت ٹھکانے لگی جو چپ
زمیں چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا
زمیں چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا اندھیروں کے اندر اتر جاؤں گا مری پتیاں ساری سوکھی ہوئیں نئے موسموں میں بکھر جاؤں گا اگر
ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا ایک مشت خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ
گانٹھی ہے اس نے دوستی اک پیش امام سے
گانٹھی ہے اس نے دوستی اک پیش امام سے عادلؔ اٹھا لو ہاتھ دعا و سلام سے پانی نے راستہ نہ دیا جان بوجھ کر
بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو
بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو جانتا ہوں یہی کرے گا تو دیکھ آگے مہیب کھائی ہے لوٹ آ ورنہ گر پڑے گا
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا پیڑوں نے
اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار
اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار آنکھوں سے راہ نکلی ہے تحت الشعور تک رگ
پھیلے ہوئے ہیں شہر میں سائے نڈھال سے
پھیلے ہوئے ہیں شہر میں سائے نڈھال سے جائیں کہاں نکل کے خیالوں کے جال سے مشرق سے میرا راستہ مغرب کی سمت تھا اس
Nazm
سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا
سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا بوسوں کا گیلا پن لفظوں کے ہونٹوں پر آوازیں چلتی ہیں ہاتھوں میں ہاتھ لیے کانٹوں نے
تنہائی
وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے دیواروں کا چونا چاٹتی رہتی ہے خاموشی کے صحراؤں میں اس کے گھر مرے ہوئے سورج ہیں اس
کھڑکی اندھی ہو چکی ہے
کھڑکی اندھی ہو چکی ہے دھول کی چادر میں اپنا منہ چھپائے کالی سڑکیں سو چکی ہیں دھوپ کی ننگی چڑیلوں کے سلگتے قہقہوں سے
فیض
اب نہ زنجیر کھڑکنے کی صدا آئے گی زنداں مہکے گا نہ اب باد صبا آئے گی ایک ایک پھول کے مرجھائے ہوئے چہرے پر
گول کمرے کو سجاتا ہوں
گول کمرے کو سجاتا ہوں تکونی خواہشوں سے کالی دیواروں پہ تیرے جسم کی چوکور خوشبو ٹانگ دی ہے نیلی چھت پہ دودھیا خوابوں کے
حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود
رات داڑھی کے اندھیرے سے تکلف برتے عرش کے سامنے رسوائی کی گردن نہ اٹھے اذن سجدہ پہ کمر تختہ نہ ہو جائے کہیں کھوکھلے
نظم
خوں پتھر پہ سرک آیا گہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا جل کنیا کے جسم پہ کالے سانپ کا سایہ لہرایا دریا دریا زہر
آمین
رات کے آخری حصے کی سیاہی گہری ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا پھر بھی خواب میں لپٹے ہوئے اندیشے نیند کے غار میں جاگی
چلو نکلو
راہ نہ دیکھو سورج کی کل میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی لاش جلائی ہے صبح نہ ہوگی اور نہ اجالا پھیلے گا رات
نظم
وہ ایک لمحہ جو سر پٹکتا ہے پتھروں پر پڑا ہوا ہے جو شام کے پھیلتے دھویں میں لہو میں لت پت وہ ایک لمحہ
ستارہ سو گیا
جسم کو خواہش کی دیمک کھا رہی ہے نیم وحشی لذتوں کی ٹوٹتی پرچھائیاں آرزو کی آہنی دیوار سے ٹکرا رہی ہیں درد کے دریا
عینک کے شیشے پر
عینک کے شیشے پر سرکتی چیونٹی آگے کے پاؤں اوپر ہوا میں اٹھا کر پچھلے پاؤں پر کھڑی ہنہناتی ہے گھوڑے کی طرح عینک کے
Sher
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا عادل منصوری
چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے عادل منصوری
کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن کبھی آسمانوں سے نیچے اتر عادل منصوری
اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا عادل منصوری
نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو عادل منصوری
پھر بالوں میں رات ہوئی پھر ہاتھوں میں چاند کھلا عادل منصوری
انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا عادل منصوری
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں تری یاد آنکھیں دکھانے لگی عادل منصوری
تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو عادل منصوری
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا عادل منصوری