Samina Raja
- 11 September 1958 - 30 October 2012
- Bahawalpur, Punjab, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. She was an Urdu poetess. Her poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
رہ فراق کسی طور مختصر کیجے
رہ فراق کسی طور مختصر کیجے جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے نہ
دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا
دل مانگے ہے موسم پھر امیدوں کا چار طرف سنگیت رچا ہو جھرنوں کا ہم نے بھی تکلیف اٹھائی ہے آخر آپ برا کیوں مانیں
وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے
وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے ہم کو ہنر تمام اسی زخم سے ملے روشن ہے ساری زندگی اس دل کی آگ
آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے
آسیب صفت یہ مری تنہائی عجب ہے ہر سمت تری یاد کی شہنائی عجب ہے اک بچھڑے شناسا سے ملاقات کے با وصف بکھرے ہوئے
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی خاک کی لوح پہ لکھا تو گیا نام مرا اصل
کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا
کب اس سے قبل نظر میں گل ملال کھلا کسی کی یاد میں لیکن یہ اب کے سال کھلا عجیب آب و ہوا تھی عجیب
خشک ہو گئیں نہریں پیڑ جل چکے ہیں کیا
خشک ہو گئیں نہریں پیڑ جل چکے ہیں کیا کچھ چمن تھے رستے میں دشت ہو گئے ہیں کیا ایک ایک سے پوچھا ہم نے
ترے وصال کا لمحہ حباب لگتا ہے
ترے وصال کا لمحہ حباب لگتا ہے یہ خواب جاگتی آنکھوں کا خواب لگتا ہے یہ میرے ہاتھ اسے چھو کے دیکھنا چاہیں وہ آدمی
چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا
چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا قصہ غم طویل تھا جان کے مختصر کیا جھوٹ نہیں تھا عشق بھی زیست بھی تھی تجھے
زہر غم کام کر گیا شاید
زہر غم کام کر گیا شاید کوئی جاں سے گزر گیا شاید دل عجب حالت قرار میں ہے زخم امید بھر گیا شاید چاند اک
ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے
ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے ایک عمر آئنے کے مقابل نہیں رہے مجبوریاں کچھ اور ہی لاحق رہیں ہمیں دل سے ترے خلاف
دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے
دل رہے گا یوں ہی بیتاب نظر آتا ہے جاگنے پر بھی وہی خواب نظر آتا ہے سامنے دیکھوں تو پڑتا ہے مرے دل پہ
Nazm
شب خزاں
تجھے اعتبار سحر بھی ہے تجھے انتظار بہار بھی مگر اے صدائے امید دل مری زندگی تو قلیل ہے یہ شب خزاں ہے مرے گماں
ہجر کی عمر بڑھی ہے
ہجر کی عمر بڑھی ہے تو ہم ان آنکھوں کو اب کسی خواب نگر میں نہیں جانے دیں گے غم سے اب دوستی کر لیں
تیسری بارش سے پہلے
اس روز موسم خزاں کی پہلی بارش ہوئی جب اس نے میرے در سے آخری بار قدم نکالا اس نے میری رسوئی سے ایک نوالہ
سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں
کبھی نیلگوں آسماں کے تلے سبز ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا سمندر کسی خواب سا خوش نما تھا سمندر کے پہلو میں شہر
اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے
یہ آنکھیں بالکل ویسی ہیں جیسی مرے خواب میں آتی تھیں پیشانی تھوڑی ہٹ کر ہے پر ہونٹوں پر مسکان کی بنتی مٹتی لہریں ویسی
ایک لمحہ جو میرا ہے
جب میں بولوں اور کوئی مری آواز سنے یوں لگتا ہے یہ لمحہ ہم دونوں کا ہے یہ اک لمحہ جو میرے اندر کی سچائی
پذیرائی
دل بڑھا اس کی پذیرائی کو ہاتھوں میں اٹھائے سبز جگنو نقرئی گل سرخ نارنجی سنہری کانپتی لو کا چراغ ایسی گل رو تھی کہ
سمندر کی خوشبو
سمندر کی خوشبو کہیں دور سے آ رہی ہے سمندر کی بو سے ہیں بوجھل۔۔۔ نشیلی ہوائیں ہوائیں جو ساحل کی خستہ تمنا سے ٹکرا
شاعری
آپ کی نظروں میں نہ جانے کیا ہے اپنی قسمت میں تو یہ دن کے چمکنے کی طرح رات کے ہونے کی طرح ہے سانس
ایک عمر کی دیر
صفحہ دل سے ترا نام مٹانے میں مجھے دیر لگی پوری اک عمر کی دیر اشک غم۔۔۔ قطرہ خوں۔۔۔ آب مسرت سے مٹا کر دیکھا
یہ رستہ
ان درختوں کے گہرے گھنے، خواب آلود سائے میں خاموش، حیران چلتا ہوا۔۔۔ ایک رستہ کسی دور کی۔۔۔ روشنی کی طرف جا رہا ہے یہاں
Sher
ہم اپنے عہد تمنا پہ اب بھی قائم ہیں ذرا شریک تمنا کو بھی خبر کیجے ثمینہ راجہ
ہے مری نیند کے ملبے پہ ہی تعمیر اس کی یہ جو اک خواب پس خواب نظر آتا ہے ثمینہ راجہ
بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے مگر یہ رنج ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے ثمینہ راجہ
سفر کی شام ستارہ نصیب کا جاگا پھر آسمان محبت پہ اک ہلال کھلا ثمینہ راجہ
خواب عریاں تو اسی طرح تر و تازہ ہے ہاں مری نیند کا ملبوس پرانا ہی سہی ثمینہ راجہ
ہمیں تو صرف شبیہیں ملی ہیں یا سائے وہ کون ہیں جنہیں چہرہ کتاب لگتا ہے ثمینہ راجہ
دل کو لپیٹ لیتا ہے اک ریشمیں خیال جب بھی نگاہ اس نگہ نرم سے ملے ثمینہ راجہ
ٹوٹ کے پھر سے جڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کیا ثمینہ راجہ
میری منزل پکارتی تھی مجھے لوٹ کر وہ بھی گھر گیا شاید ثمینہ راجہ
رات گئے تک راہ وہ میری دیکھے گا مجھ پر ہے اک خوف سا طاری راہوں کا ثمینہ راجہ
اب مجھ پہ کھلا اپنے در و بام کا افسوں یوں ہے کہ مرے گھر کی یہ تنہائی عجب ہے ثمینہ راجہ
رات تنہائی تعاقب میں مسلسل کوئی چاپ اور جب علم ہو آگے یہ گلی بند بھی ہے ثمینہ راجہ