Shamim Karhani
- 8 June 1913-19 March 1975
- Karhan, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Shamim Karhani was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں
انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں بس پیار ہماری قیمت ہے مل جائے تو ہم بک جاتے ہیں سکوں کی
قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا
قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا اچھا کیا کہ آپ نے اپنا بنا لیا ہونے دیا نہ ہم نے اندھیرا شب فراق بجھنے
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں کاروان آرزو اس طرف نہ رخ کرے ان
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی کیا طرفہ طبیعت ہے شعلہ بھی ہیں شبنم بھی خاموش نہ تھا دل بھی خوابیدہ
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں ادا ادا سے تم کہو نظر نظر سے ہم کہیں جو تم خدا خدا کہو تو
پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے
پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے اس دور کے شیشوں میں صہبا ہے کہ پانی ہے اے حسن تجھے اتنا کیوں ناز
گلی گلی ہے اندھیرا تو میرے ساتھ چلو
گلی گلی ہے اندھیرا تو میرے ساتھ چلو تمہیں خیال ہے میرا تو میرے ساتھ چلو میں جا رہا ہوں اجالوں کی جستجو کے لیے
رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں
رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے گی راہوں میں کیوں میری محبت سے برہم ہو
جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے
جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے ایک برات آ چکی ایک برات اور ہے عشق کی اک زبان پر لاکھ طرح کی بندشیں
شراب و شعر کے سانچے میں ڈھل کے آئی ہے
شراب و شعر کے سانچے میں ڈھل کے آئی ہے یہ شام کس کی گلی سے نکل کے آئی ہے سمجھ رہا ہوں سحر کے
ان کا وعدہ بدل گیا ہے
ان کا وعدہ بدل گیا ہے فردا آنسو میں ڈھل گیا ہے تنہائی سے کچھ ہوئی ہیں باتیں تنہائی سے دل بہل گیا ہے معمول
جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے
جو مل گئی ہیں نگاہیں کبھی نگاہوں سے گزر گئی ہے محبت حسین راہوں سے چراغ جل کے اگر بجھ گیا تو کیا ہوگا مجھے
Nazm
قومی گیت
ہم کام کے نغمے گاتے ہیں بیکار ترانہ کیا جانیں جو صرف عمل کے بندے ہیں وہ بات بنانا کیا جانیں رگ رگ میں لہو
آزادی کی صبح
ذرا دیکھو تو ماں پیڑوں پہ چڑیاں خوشی کے گیت کیسے گا رہی ہیں بتاؤ کب تک آئے گا وہ دن ماں کہ میں گاؤں
لڑکپن کی یاد
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے کبھی خالی کلاسوں میں جو بچے غل مچاتے ہیں کسی انجان شاعر کی غزل مل
کھنڈر
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر جہاں پڑے ہیں نکیلے سے سرمئی کنکر جہاں کی خاک پہ شبنم کے ہار بکھرے ہیں شفق کی
روشنی تیز کرو
روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو گم ہے اندیشۂ امروز کی ظلمت میں حیات زہرہ و ماہ سے محروم ہے جذبات کی رات زعفراں
راہ گزر
تھرتھراتا ہوا احساس کے غم خانے میں نرگسی آنکھوں کا معصوم سا شکوا دن رات زیست کے ساتھ رہا کرتا ہے سائے کی طرح چند
انوکھی دنیا
اک انوکھی نرالی دنیا میں یوں سمجھ لو خیالی دنیا میں اپنی دنیا سے بھی بہت پہلے لو کہانی سنو کہ دل بہلے ناچتے تھے
ترنگا
لہرائے جا ترنگا آزادی کے عاشق ویروں کے سر پر لہرائے جا لہرا لہرا کر آزادی کے پیغام بنائے جا کوہستانی برف کی صورت تجھ
صبح کا گیت
صبح کے دھندلکے میں طائروں کی پروازیں آ رہی ہیں مل جل کر زندگی کی آوازیں میرے لال ظلمت میں صبح نو کی آہٹ ہے
مکان
اک پہاڑی کی اونچی چوٹی پر میں بناؤں گا ایک ایسا گھر جس میں چاروں ہوائیں آئیں گی اور سندیسے نئے سنائیں گی آ کے
فریب نظر
بھیگی بھیگی سی ہوائیں، مہکا مہکا سا چمن چاند کی پگھلی ہوئی چاندی سے دھرتی سیم تن شاخ کے نیچے پری پیکر سا کوئی خندہ
بھارت ماتا
دیہاتی رستوں پہ چلتی شہروں کی سڑکوں پہ ٹہلتی سر پر چکنے چکنے گھڑے ہیں ہاتھ میں موتی کنگن جڑے ہیں اس کے پیچھے بچے
Sher
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں
فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں شمیم کرہانی
قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا
قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا اچھا کیا کہ آپ نے اپنا بنا لیا شمیم کرہانی
چپ ہوں تمہارا درد محبت لیے ہوئے
چپ ہوں تمہارا درد محبت لیے ہوئے سب پوچھتے ہیں تم نے زمانے سے کیا لیا شمیم کرہانی
پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر
پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر عشق جو بانٹتا ہے وہ آب حیات اور ہے شمیم کرہانی
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی کیا طرفہ طبیعت ہے شعلہ بھی ہیں شبنم بھی شمیم کرہانی
بجھا ہے دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا غم بھی
بجھا ہے دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا غم بھی کہ اب چراغ کے بدلے چراغ کی لو ہے شمیم کرہانی
یاد ماضی غم امروز امید فردا
یاد ماضی غم امروز امید فردا کتنے سائے مرے ہم راہ چلا کرتے ہیں شمیم کرہانی
لیجئے بلا لیا آپ کو خیال میں
لیجئے بلا لیا آپ کو خیال میں اب تو دیکھیے ہمیں کوئی دیکھتا نہیں شمیم کرہانی
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے شمیم کرہانی