Ameer Meenai
- 1829 — 13 October 1900
- Lucknow, India
Introduction
Ghazal
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے ، آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وُہ تُو ہم سے کر
اِس کی حسرت ہے جسے دِل سے مٹا بھی نہ سکوں
اِس کی حسرت ہے جسے دِل سے مٹا بھی نہ سکوں ڈھونڈنے اِس کو چلا ہوں، جسے پا بھی نہ سکوں ڈال کہ خاک مرے
ہنس کہ فرماتے ہیں وُہ دیکھ کہ حالت مری
ہنس کہ فرماتے ہیں وُہ دیکھ کہ حالت مری کیوں تم آسان سمجھتے تھے مُحبت مری بعد مرنے کہ بھی چھوڑی نہ رفاقت مری مری
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے ہم میرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے تُجھ سے مانگوں میں تجھی کو کے
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے ٹوٹتی ہیں بجلیاں اِن کہ لیے ہے جوانی خود جوانی کا سنگار سادگی گہنہ ہے اس سن
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں تڑپ کہ روح یہ کہتی ہے ، ہجر جاناں میں کے
اے ضبط دیکھ عشق کی اِن کو خبر نہ ہو
اے ضبط دیکھ عشق کی اِن کو خبر نہ ہو دِل میں ہزار درد اٹھے آنکھ تر نہ ہو مدت میں شام وصل ہوئی ہے
فراق یار نے بے چین مُجھ کو رات بھر رکھا
فراق یار نے بے چین مُجھ کو رات بھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا شکست دل کا باقی ہم نے غربت
ہم لوٹتے ہیں وُہ سو رہے ہیں
ہم لوٹتے ہیں وُہ سو رہے ہیں کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں دُو ہنستے ہیں چار
چاند سا چہرہ نُور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
چاند سا چہرہ نُور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ طرفہ نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ماشاء اللہ گل رُخ نازک زلف ہے ،
کہا جُو میں نے کے یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
کہا جُو میں نے کے یوسف کو یہ حجاب نہ تھا تُو ہنس کہ بولے وُہ منہ قابل نقاب نہ تھا شب وصال بھی وُہ
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے سینہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے خوف میزان قیامت نہیں مُجھ کو
Naat
تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول بر آئیں میرے دل کے بھی ارمان یا رسول کیوں دل سے میں فدا نہ کروں
حلقے میں رسولوں کے وہ ماہ مدنی ہے
حلقے میں رسولوں کے وہ ماہ مدنی ہے کیا چاند کی تنویر ستاروں میں چھنی ہے کہہ دے مرے عیسیٰ سے مدینے میں یہ کوئی
بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی
بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی کہ فرد داخل دفتر ہوئی گناہوں کی ترے فقیر دکھائیں جو مرتبہ اپنا نظر سے اترے چڑھی
آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں
آنسو مری آنکھوں میں نہیں آئے ہوئے ہیں دریا تری رحمت کے یہ لہرائے ہوئے ہیں اللہ ری حیا حشر میں اللہ کے آگے ہم
Sher
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو .ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو امیر مینائی
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ .مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے امیر مینائی
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیر
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ .قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ .سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے امیر مینائی
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر .سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر امیر مینائی
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے .زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے امیر مینائی
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو .نہ چھیڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو امیر مینائی
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب .وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے امیر مینائی
امیر اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
امیر اب ہچکیاں آنے لگی ہیں .کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں امیر مینائی
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ .حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ امیر مینائی
ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں
ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں .تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں امیر مینائی
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے .آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کے امیر مینائی