Imam Bakhsh Nasikh
- 1776-1839
- Faizabad, India
Introduction
Ghazal
جان ہم تُجھ پہ دیا کرتے ہیں
جان ہم تُجھ پہ دیا کرتے ہیں نام ترا ہی لیا کرتے ہیں چاک کرنے کہ لیے اے ناصح ہم گریبان سیا کرتے ہیں ساغر
سو قصوں سے بہتر ہے کہانی میرے دِل کی
سو قصوں سے بہتر ہے کہانی میرے دِل کی سن اِس کو تُو اے جان زبانی میرے دِل کی ہر نالے میں یاں ٹکڑے جگر
ہیں اشک میری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
ہیں اشک میری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ ہیں داغ میرے سینے میں انجم سے زیادہ سُو رمز کی کرتا ہے اشارے میں وہ باتیں
سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں
سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں ہم سر زلف گرہ گیر لیے پھرتے ہیں کون تھا صید وفادار کے اب تک صیاد بال و
یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں ہائے وُہ پیار کی آواز وہ پیاری باتیں پہروں چپ رہتے ہیں ہم اُور اگر بولتے ہیں وہی
زور ہے گرمئ بازار تیرے کوچے میں
زور ہے گرمئ بازار تیرے کوچے میں جمع ہیں ترے خریدار تیرے کوچے میں دیکھ کر تُجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا بن گئے
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ اُور ہی لایا فراق یار رنگ سرخ رو کر دے شراب آئی بہار ہے خزاں سے زرد
میرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
میرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا طلوع صبح محشر چاک ہے مرے گریباں کا ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے
چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں داغ ہیں یہ گُل نہیں ناسور ہیں اختر نہیں سر رہے یا جائے کچھ ہم
دِل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
دِل میں پُوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات لوگ
ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ ہو گیا غم سے ہمارا تن لاغر کاغذ نامۂ یار کہ لکھنے کو مُجھے ارزاں ہے تول دے
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں جس سر زمیں کہ ہم ہیں وہاں آسماں نہیں دُو روز ایک وضع پہ رنگ جہاں نہیں وُہ
Sher
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
وُہ نہیں بُھولتا جہاں جاؤں ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں امام بخش ناسخ
تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
تری صورت سے کسی کی نہیں مِلتی صورت ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں امام بخش ناسخ
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے کگ تاریکی میں سایہ بھی جُدا رہتا ہے انِساں سے امام بخش ناسخ
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
زندگی زندہ دِلی کا ہے نام مُردہ دِل خاک جیا کرتے ہیں امام بخش ناسخ
سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں
سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں ہم سر زُلف گرہ گیر لیے پھرتے ہیں امام بخش ناسخ
جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے
جستجُو کرنی ہر اِک امر میں نادانی ہے جُو کے پیشانی پہ لکھی ہے وُہ پیش آنی ہے امام بخش ناسخ
رشک سے نام نہیں لیتے کے سن لے نہ کوئی
رشک سے نام نہیں لیتے کے سُن لے نہ کوئی دِل ہی دِل میں اُسے ہم یاد کیا کرتے ہیں امام بخش ناسخ
معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ
معشوقوں سے اُمید وفا رکھتے ہو ناسخؔ ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ امام بخش ناسخ
لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
لیتے لیتے کروٹیں تُجھ بن جُو گھبراتا ہوں میں نام لے لے کر تیرا راتُوں کو چلاتا ہوں میں امام بخش ناسخ
اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ
اب کی ہولی میں رہا بے کار رَنگ اُور ہی لایا فراق یار رَنگ امام بخش ناسخ
ہم مے کشوں کو ڈر نہیں مرنے کا محتسب
ہم مے کشوں کو ڈر نہیں مرنے کا محتسب فردُوس میں بھی سُنتے ہیں نہر شراب ہے امام بخش ناسخ
آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم
آنے میں سَدا دیر لگاتے ہی رہے تم جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم امام بخش ناسخ