Munavvar Lakhnavi
- 1897-1970
- Lucknow, British India
Introduction
ان کے کاموں میں شامل ہیں
نظر-ای-ادب
کائنات-ای-دل
نوا-ای-کفر
ادا-ای-کفر
Ghazal
سکوں مل گیا ہے قرار آ گیا ہے
سکوں مل گیا ہے قرار آ گیا ہے کسی پر ہمیں اعتبار آ گیا ہے قفس میں بھی کیسی بہار آ گئی ہے قفس میں
کیا کوئی سمجھے گا افسانہ مرا
کیا کوئی سمجھے گا افسانہ مرا حال ہے سب سے جداگانہ مرا مے پلانا ہے تو یوں ساقی پلا ہو کبھی خالی نہ پیمانہ مرا
حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی
حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی نہیں جاتی نظر کی پا بہ جولانی نہیں جاتی لب خاموش ساحل سے سکوں کا درس ملتا
خود کو شرمندہ بیداد کیا ہے کس نے
خود کو شرمندہ بیداد کیا ہے کس نے آج بھولے سے مجھے یاد کیا ہے کس نے کس نے پہلو میں یہ آہستہ سے چٹکی
ہزار کفر ہیں اک چشم پارسا میں تری
ہزار کفر ہیں اک چشم پارسا میں تری بھری ہوئی ہے شرارت ادا ادا میں تری بقا کو اپنی مشیت تری سمجھتا ہوں مری حیات
جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں
جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں ہم مگر سرحد ادراک کو چھو لیتے ہیں مے میسر جو نہیں پیاس بجھانے کے لیے
کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا
کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا میں زندگی کو الٹ دوں چلے جو بس میرا کہاں کہاں نہ گیا حال دل سنانے کو
اس طرح عشق کا آزار نہ جی کو ہوگا
اس طرح عشق کا آزار نہ جی کو ہوگا جو مجھے دکھ ہے وہ شاید نہ کسی کو ہوگا مستیاں بڑھ کے مری خود ہی
کسی صورت سے ہو جاتا ہے سامان سفر پیدا
کسی صورت سے ہو جاتا ہے سامان سفر پیدا ارادہ کر ہی لیتا ہے خود اپنی رہ گزر پیدا گنہ گاری کی نیت کو گنہ
ہزار شکر کہ اندیشہ مال گیا
ہزار شکر کہ اندیشہ مال گیا کوئی کسی سے جو کہنے کو دل کا حال گیا کہاں کہاں نہیں دونوں کو دسترس حاصل وہیں نگاہ
ناکامیوں پہ سر بہ گریباں نہیں ہوں میں
ناکامیوں پہ سر بہ گریباں نہیں ہوں میں جو اٹھ کے بیٹھ جائے وہ طوفاں نہیں ہوں میں کیا خاک دل کی آگ جو شعلہ
دل وحشی کا افسانہ کہے گا تم بھی سن لینا
دل وحشی کا افسانہ کہے گا تم بھی سن لینا جنوں کے راز دیوانہ کہے گا تم بھی سن لینا وہ دل جس سے مٹائے
Sher
کیا ہے خون تمنا نے سرخ رو کیا کیا
کیا ہے خون تمنا نے سرخ رو کیا کیا تمام کام ہوا عرض نا تمام کے بعد منور لکھنوی
فنا سے کام تجھے کیا کہ جاوداں تو ہے
فنا سے کام تجھے کیا کہ جاوداں تو ہے نہیں زوال سے نادم کبھی کمال ترا منور لکھنوی
جیب خالی ہو تو اک لمحہ بھی ہوتا ہے پہاڑ
جیب خالی ہو تو اک لمحہ بھی ہوتا ہے پہاڑ مفلسی میں بسر اوقات بہت مشکل ہے منور لکھنوی
نہیں معلوم کتنی مرتبہ مرنا پڑا مجھ کو
نہیں معلوم کتنی مرتبہ مرنا پڑا مجھ کو جئے جانا مرا ہر حال میں ہے معجزہ میرا منور لکھنوی
آخر سر نیاز جھکائیں تو کس طرح
آخر سر نیاز جھکائیں تو کس طرح نا آشنا ہیں رسم و راہ بندگی سے ہم منور لکھنوی
قریہ قریہ کوچے کوچے میں وہ جنگی معرکے
قریہ قریہ کوچے کوچے میں وہ جنگی معرکے ہر طرف سے آگ برسی جن پہ وہ گھر دیکھیے منور لکھنوی
جس سمت سر جھکاؤں گلشن عرق عرق ہو
جس سمت سر جھکاؤں گلشن عرق عرق ہو مہکے مری جبیں سے ہر پھول کا پسینا منور لکھنوی
تم بنا لیتے ہو اپنی داستاں
تم بنا لیتے ہو اپنی داستاں جب الٹ جاتا ہے افسانہ مرا منور لکھنوی
کھنچی ہوئی چلی آتی ہے اس میں اک دنیا
کھنچی ہوئی چلی آتی ہے اس میں اک دنیا سما رہا ہے مرے دل میں یوں خیال ترا منور لکھنوی
روشنی حد سے زیادہ نہ بڑھے
روشنی حد سے زیادہ نہ بڑھے سامنے میرے اندھیرا نہ کرو منور لکھنوی
کافر کی جستجو ہے نہ دیں دار کی تلاش
کافر کی جستجو ہے نہ دیں دار کی تلاش ہے ایک جذب غم کے پرستار کی تلاش منور لکھنوی
کوئی غریب کے اس حوصلے کی واہ تو دے
کوئی غریب کے اس حوصلے کی واہ تو دے ذرا سی جان نے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا منور لکھنوی