Bismil Saeedi
- 06 January 1901-26 August 1976
- Tonk, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Bismil Saeedi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے طوفان کے بعد کا سکوں ہے احساس کو ضد ہے درد دل سے کم ہو تو یہ جانیے
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے کعبے میں مسلمان کو کہہ
یہ میں ہوں تجھ میں اب یا مجھ میں تو ہے
یہ میں ہوں تجھ میں اب یا مجھ میں تو ہے یہ کون اب آئنے میں رو بہ رو ہے یہ دل ہے اور ہے
رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور
رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور لیکن چمن میں تھی یہ جگہ آسماں سے دور اس قرب سے جو سجدوں میں تجھ
ہوس کی دنیا میں رہنے والوں کو میں محبت سکھا رہا ہوں
ہوس کی دنیا میں رہنے والوں کو میں محبت سکھا رہا ہوں جہاں پہ دامن بچھے ہوئے ہیں وہاں پر آنکھیں بچھا رہا ہوں سرود
عشق جو ناگہاں نہیں ہوتا
عشق جو ناگہاں نہیں ہوتا وہ کبھی جاوداں نہیں ہوتا عشق رکھتا ہے جس جگہ دل کو میں بھی اکثر وہاں نہیں ہوتا مجھ پہ
وقف کر کے زندگی کی ساعتیں تیرے لئے
وقف کر کے زندگی کی ساعتیں تیرے لئے اپنے سر لیں میں نے کیا کیا آفتیں تیرے لئے کر لیا نظارہ حسن اپنی آنکھوں پر
نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں
نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں نہ اب وہ حسن نہ وہ حسن کی ہوائیں رہیں نہ عشق عشق رہا اب
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اس کا مرا یارانہ تھا
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب اس کا مرا یارانہ تھا آپ سے بیگانہ وہ تھا خود سے میں بیگانہ تھا ربط و ضبط
نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں
نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں نئی زمین نیا آسماں ہے اور ہم ہیں نئے مقام نئے مرحلے نئی راہیں نئے
کون سمجھے عشق کی دشواریاں
کون سمجھے عشق کی دشواریاں اک جنوں اور لاکھ ذمہ داریاں اہتمام زندگی عشق دیکھ روز مر جانے کی ہیں تیاریاں عشق کا غم وہ
عشق پر زور چل نہیں سکتا
عشق پر زور چل نہیں سکتا دل سنبھالے سنبھل نہیں سکتا آ کے دنیا میں انقلاب کوئی دل کی دنیا بدل نہیں سکتا ان کی
Sher
کیا اہل جہاں تجھ کو ستم گر نہیں کہتے
کیا اہل جہاں تجھ کو ستم گر نہیں کہتے کہتے تو ہیں لیکن ترے منہ پر نہیں کہتے بسمل سعیدی
رہا کرتا ہوں کچھ کھویا ہوا سا
رہا کرتا ہوں کچھ کھویا ہوا سا خدا جانے مجھے کیا جستجو ہے بسمل سعیدی
عدم کے تاریک راستے میں کوئی مسافر نہ راہ بھولے
عدم کے تاریک راستے میں کوئی مسافر نہ راہ بھولے میں شمع ہستی بجھا کر اپنی چراغ تربت جلا رہا ہوں بسمل سعیدی
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے
اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے طوفان کے بعد کا سکوں ہے بسمل سعیدی
بے خودی عشق جیسے غم کی نیند
بے خودی عشق جیسے غم کی نیند غم کی نیندیں روح کی بیداریاں بسمل سعیدی
نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا
نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا نہ وہ وفائیں رہیں اب نہ وہ جفائیں رہیں بسمل سعیدی
آ گیا ہوں وہاں سے گھبرا کر
آ گیا ہوں وہاں سے گھبرا کر اب کہیں دل بہل نہیں سکتا بسمل سعیدی
ہوئے ہیں دیر و حرم سے ہمارے کچھ پیماں
ہوئے ہیں دیر و حرم سے ہمارے کچھ پیماں ہمارے ان کے خدا درمیاں ہے اور ہم ہیں بسمل سعیدی
میں نے دیکھا ہے ان کی محفل میں
میں نے دیکھا ہے ان کی محفل میں کچھ زمان و مکاں نہیں ہوتا بسمل سعیدی
بجا کہ خون کی گرمی کا نام ہے انساں
بجا کہ خون کی گرمی کا نام ہے انساں نہ ہو جو گرم محبت سے وہ لہو کیا ہے بسمل سعیدی
چھوٹ کر رہ جائیں نبضیں عشق کی
چھوٹ کر رہ جائیں نبضیں عشق کی سہل ہو جائیں اگر دشواریاں بسمل سعیدی
ساجد و مسجود ہم باہم تھے ہم دونوں کا دل
ساجد و مسجود ہم باہم تھے ہم دونوں کا دل کعبے کا کعبہ تھا اور بت خانے کا بت خانہ تھا بسمل سعیدی