Khwaja Meer Dard
- 1721-1785
- Dehli, India
Introduction
Ghazal
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا رات مجلس میں ترے حسن کے
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا جان سے ہو گئے بدن خالی جس طرف تو نے آنکھ بھر
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے وحدت میں تیری حرف دوئی کا
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا ہے کہ کچھ آرزو کریں مٹ جائیں ایک آن میں کثرت نمائیاں
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا مرا غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ کہ جس کو
دل مرا پھر دکھا دیا کن نے
دل مرا پھر دکھا دیا کن نے سو گیا تھا جگا دیا کن نے میں کہاں اور خیال بوسہ کہاں منہ سے منہ یوں بھڑا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں دریائے معرفت کے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے
مجھ کو تجھ سے جو کچھ محبت ہے یہ محبت نہیں ہے آفت ہے لوگ کہتے ہیں عاشقی جس کو میں جو دیکھا بڑی مصیبت
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہوگا ان نے قصداً بھی میرے نالے کو نہ سنا ہوگا گر
مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا
مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم سبھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا وائے نادانی کہ وقت مرگ
Sher
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تُو اِس جینے کہ ہاتھوں مر چلے خواجہ میر درد
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تُو فرشتے وضو کریں خواجہ میر درد
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
سیر کر دُنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں زندگی گر کچھ رہی تُو یہ جوانی پھر کہاں خواجہ میر درد
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
اذیت مصیبت ملامت بلائیں تیرے عِشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا خواجہ میر درد
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تیری ہرگز
نہیں شکوہ مُجھے کچھ بے وفائی کا تیری ہرگز گلا تب ہو اگر تُو نے کسی سے بھی نبھائی ہو خواجہ میر درد
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا خواجہ میر درد
میں جاتا ہوں دل کو تیرے پاس چھوڑے
میں جاتا ہوں دِل کو تیرے پاس چھوڑے میری یاد تُجھ کو دلاتا رہے گا خواجہ میر درد
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے تُجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے خواجہ میر درد
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے میرا ہی دِل ہے وُہ کے جہاں تُو سما سکے خواجہ میر درد
کبھو رونا کبھو ہنسنا کبھو حیران ہو جانا
کبھو رُونا کبھو ہنسنا کبھو حیران ہو جانا مُحبت کیا بھلے چنگے کو دیوانہ بناتی ہے خواجہ میر درد
درد دل کہ واسطے پیدا کیا انسان کو
درد دِل کہ واسط ے پیدا کیا انِسان کو ورنہ طاعت کہ لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں خواجہ میر درد
دشمنی نے سنا نہ ہووے گا
دُشمنی نے سُنا نہ ہووے گا جُو ہمیں دُوستی نے دکھلایا خواجہ میر درد
Qita
ہم یہ کہتے تھے کہ احمق ہو جو دل کو دیوے
ہم یہ کہتے تھے کہ احمق ہو جو دل کو دیوے دیکھیں تو چھین لے دل ہم سے وہ کون ایسا ہے سو اب اک
کنج کاوی جو کی سینے میں غم ہجراں نے
کنج کاوی جو کی سینے میں غم ہجراں نے اس دفینے ستی اقسام جواہر نکلا اشک تر لخت جگر قطرۂ خوں پارۂ دل ایک سے
دیکھ مجھے طبیب آج پوچھا جو حالت مزاج
دیکھ مجھے طبیب آج پوچھا جو حالت مزاج کہنے لگا کہ لا علاج بندہ ہوں میں خدا نہیں چہرہ ترا بھی زرد ہے آہ لبوں
نامہ درد کو مرے لے کر
نامہ درد کو مرے لے کر پاس جب یار کے گیا قاصد پڑھ کے کہنے لگا وہ سرنامہ کون سا یار ہے بتا قاصد جس