Kaifi Azmi
- 14 January 1918-10 May 2002
- Uttar Pradesh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Kaifi Azmi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر کیا حال ہے کیا دکھا
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے نئے بشر کا کہیں
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی
آج سوچا تو آنسو بھر آئے
آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائے ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے
وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد
وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد داد سخن ملی مجھے ترک سخن کے بعد دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے ٹھہرا نہ
کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں
کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا لبوں سے اڑ گیا جگنو
ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی
ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی میرا چھپر اٹھا گیا کوئی لگ گیا اک مشین میں میں بھی شہر میں لے کے آ گیا کوئی
یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے وہیں تھم کے رہ گئی ہے مری رات ڈھلتے ڈھلتے جو کہی گئی ہے مجھ
Nazm
عورت
اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے قلب ماحول میں لرزاں شرر جنگ ہیں آج حوصلے وقت کے اور زیست کے یک رنگ
کوئی یہ کیسے بتائے
کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے یہی دنیا ہے تو پھر ایسی
دائرہ
روز بڑھتا ہوں جہاں سے آگے پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ہوں بارہا توڑ چکا ہوں جن کو انہیں دیواروں سے ٹکراتا ہوں روز
تصور
یہ کس طرح یاد آ رہی ہو یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو یہ
دوسرا بن باس
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
نوحہ
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر راکھ
ایک لمحہ
زندگی نام ہے کچھ لمحوں کا اور ان میں بھی وہی اک لمحہ جس میں دو بولتی آنکھیں چائے کی پیالی سے جب اٹھیں تو
پشیمانی
میں یہ سوچ کر اس کے در سے اٹھا تھا کہ وہ روک لے گی منا لے گی مجھ کو ہواؤں میں لہراتا آتا تھا
کسان
چیر کے سال میں دو بار زمیں کا سینہ دفن ہو جاتا ہوں گدگداتے ہیں جو سورج کے سنہرے ناخن پھر نکل آتا ہوں اب
مکان
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی
نذرانہ
تم پریشان نہ ہو، باب کرم وا نہ کرو اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں
آخری رات
چاند ٹوٹا پگھل گئے تارے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات پلکیں آنکھوں پہ جھکتی آتی ہیں انکھڑیوں میں کھٹک رہی ہے رات آج چھیڑو
Sher
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں کیفی اعظمی
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں کیفی اعظمی
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد کیفی اعظمی
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی کیفی اعظمی
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں کیفی اعظمی
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے کیفی اعظمی
گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ کیفی اعظمی
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے کیفی اعظمی
کوئی کہتا تھا سمندر ہوں میں
کوئی کہتا تھا سمندر ہوں میں اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں کیفی اعظمی
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے کیفی اعظمی
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے کیفی اعظمی
روز بستے ہیں کئی شہر نئے
روز بستے ہیں کئی شہر نئے روز دھرتی میں سما جاتے ہیں کیفی اعظمی