Abdul Hamid
- 1953
- Allahabad, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں
ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں دیکھو ہم بھی کیا کیا کر کے بیٹھ گئے ہیں پوچھ رہے ہیں لوگ ارے وہ
کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا
کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا سرگرمی وحشت کا امکان بہت رکھا ایسا تو نہ تھا مشکل اک ایک قدم اٹھنا اس بار
دل میں جو بات ہے بتاتے نہیں
دل میں جو بات ہے بتاتے نہیں دور تک ہم کہیں بھی جاتے نہیں عکس کچھ دیر تک نہیں رکتے بوجھ یہ آئنے اٹھاتے نہیں
کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی
کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی سہی وہ دشمن جاں آشنا ملے تو سہی ابھی تو لال ہری بتیوں کو دیکھتے ہیں
کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے
کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے یہ دریا اتنا پانی پی کے پیاسا کیسا لگتا ہے ہم اس سے تھوڑی دوری پر
کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا
کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا ہوئے خاک جب تو بکھرنا بھی کیا وہی اک سمندر وہی اک ہوا مری شام تیرا سنورنا
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں
ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے
ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے کس قدر فرط عقیدت سے جھکا اور پھر خاک اڑا دی
اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا
اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا وہ جگنو تھا اس سے ہمیں اک ستارہ بہت یاد آیا یہی شام کا وقت تھا
کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں
کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں کیا خبر تھی اس انجام کی کچھ نہیں کچھ نہیں آج جتنے برادر ملے چاک چادر ملے
عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے
عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے چہار سمت سے تیشہ زنی ہوا کی ہے یہ
سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا
سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا دل میں جو ٹھہراؤ تھا اک دم درہم برہم ہونے لگا پردیسی کا واپس آنا جھوٹی
Sher
لوگوں نے بہت چاہا اپنا سا بنا ڈالیں پر ہم نے کہ اپنے کو انسان بہت رکھا عبدالحمید
ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے عبدالحمید
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں عبدالحمید
لوٹ گئے سب سوچ کے گھر میں کوئی نہیں ہے اور یہ ہم کہ اندھیرا کر کے بیٹھ گئے ہیں عبدالحمید
زوال جسم کو دیکھو تو کچھ احساس ہو اس کا بکھرتا ذرہ ذرہ کوئی صحرا کیسا لگتا ہے عبدالحمید
اترے تھے میدان میں سب کچھ ٹھیک کریں گے سب کچھ الٹا سیدھا کر کے بیٹھ گئے ہیں عبدالحمید
فلک پر اڑتے جاتے بادلوں کو دیکھتا ہوں میں ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تماشا کیسا لگتا ہے عبدالحمید
دور بستی پہ ہے دھواں کب سے کیا جلا ہے جسے بجھاتے نہیں عبدالحمید
دم بہ دم مجھ پہ چلا کر تلوار ایک پتھر کو جلا دی اس نے عبدالحمید
دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں عبدالحمید
یہ قید ہے تو رہائی بھی اب ضروری ہے کسی بھی سمت کوئی راستہ ملے تو سہی عبدالحمید
برستے تھے بادل دھواں پھیلتا تھا عجب چار جانب فضا کھل اٹھی تو سراپا تمہارا بہت یاد آیا عبدالحمید