Abid Jafri
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خوں مرا جس سے ہوا ہے خنجر احباب ہے
خوں مرا جس سے ہوا ہے خنجر احباب ہے یہ حقیقت ہے مگر لگتا ہے جیسے خواب ہے اس لیے مجھ سا نمایاں ہو گیا
وہ دل کی جھیل میں اترا تھا ایک ساعت کو
وہ دل کی جھیل میں اترا تھا ایک ساعت کو یہ عمر ہو گئی ہے سہتے اس ملامت کو کہیں تو سایۂ دیوار آگہی مل
یہی تو ایک شکایت سفر میں رہتی ہے
یہی تو ایک شکایت سفر میں رہتی ہے ہوائے گرد مسلسل نظر میں رہتی ہے جزائے کاوش تعمیر یہ ملی ہے ہمیں صدائے تیشہ سدا
کون تھا جو دست قاتل کے لئے تیار تھا
کون تھا جو دست قاتل کے لئے تیار تھا ایک میں ہی بزم اہل خواب میں بیدار تھا بھر لیے ہیں تیرگی سے گھر کی
محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا
محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا ہے یوں کہ جیسے جنوں میں خود ہی پہ وار کرنا عجب نہیں وہ بھی میرے رستے پہ
یہ داغ ہجر نہیں مٹ سکا جبیں کا لگا
یہ داغ ہجر نہیں مٹ سکا جبیں کا لگا زمیں کہیں کی ہے پیوند ہے کہیں کا لگا ملا ہے دشت ہمیں جستجو میں منزل
کر چکا پھول میں جب سارے جہاں کے پتھر
کر چکا پھول میں جب سارے جہاں کے پتھر آ پڑے سر پہ مرے جانے کہاں کے پتھر ظرف دل میں نمی اشک حقیقت نہ
شکوے ہمیں تو جہد مکرر کے نہیں ہیں
شکوے ہمیں تو جہد مکرر کے نہیں ہیں ہجرت ہوئی ہے یوں کہ کسی گھر کے نہیں ہیں کس جرم میں یہ پہلو تہی ہم
وہ جو اپنے تھے وہی ہو گئے ہرجائی بھی
وہ جو اپنے تھے وہی ہو گئے ہرجائی بھی بات پیشانی پہ لکھی ہوئی پیش آئی بھی دل تو پہلے ہی تھا محصور غم تنہائی
یہ کس نے عہد فراموش سے صدا دی ہے
یہ کس نے عہد فراموش سے صدا دی ہے ابھی چراغ جلائے ہی تھے ہوا دی ہے یہ ورثہ ہم سے نئی نسل کو کبھی
بصارتوں کو رہ شوق میں گنوا دیکھا
بصارتوں کو رہ شوق میں گنوا دیکھا تجھے نہ دیکھا مگر ہاں یہ حادثہ دیکھا وجود سونپ کے سب کچھ بچا لیا ہم نے نہ
میں اجنبی رہا سب سے مگر سبھی میں رہا
میں اجنبی رہا سب سے مگر سبھی میں رہا یہ حوصلہ بھی یہاں پر کسی کسی میں رہا قبائے عظمت انساں ملی فقیروں کو فقیہ
Nazm
یہ مجھ میں کون ہے
یہ مجھ میں کون ہے کہ جب بھی گردش لہو نے میرے جسم کی حرارتیں ہر اک رگ حیات میں اتار دیں تو اس کی
جاگتی آنکھوں کے خواب
میں کیا لکھوں تمہارے واسطے اے نیم جان و سوختہ تن وادیٔ قتل اماں کے باسیو میں کیا لکھوں کوئی نوحہ تمہارے روبرو شرمندۂ تاثیر
بے زمینی
میں ایک تیشہ بدست انساں مجھے خرابوں کی جستجو ہے مجھے پہاڑوں کی آرزو ہے میں چاہتا ہوں کہ اس جہاں کے تمام دکھڑے اکھاڑ
پھر نہ آواز دو
اب نہیں آؤں گا میں تمہارے کسی دام میں اب نہیں آؤں گا ایک مدت ہوئی کشتئ دل کو جذبوں کے سیلاب سے کھینچ لایا
قتل گاہیں
یہ میرا قبلہ وہ تیرا قبلہ یہ میری سرحد وہ تیری سرحد یہ میرا مذہب وہ تیرا مذہب یہ نسل میری وہ نسل تیری ہیں
فصیل ذات
میں کس منزل پہ آ پہنچا یہاں تو چاندنی اوڑھے ہوئے رستوں کا سناٹا بہت ہی دور تک پھیلا ہوا ہے مگر میں ذات کے
نا آشنائی
یہ کس نے چہروں پہ تان دی ہے ناآشنائی کی پھر سے چادر کہ اس کی اجلی زمیں پہ میں نے برش سے آنکھوں کے
مشورہ
سنو ظلم کا ابر دھرتی کے تپتے بدن پر جو برساؤ گے تو سمے آئے گا اور آنے ہی والا ہے یہ جان لو کہ
رجز
اٹھاؤ مشعل چلو وہ بستی قریب تر ہے جہاں بسیرا ہے بے گھروں کا یہ لوگ وحشت زدہ کہ جن کے اداس چہروں پہ بے
بے اماں سائباں
ہو رہا ہے وہی جس کا اندیشہ ذہنوں میں پلتا رہا غیر لوگوں کو اپنا بنانے کا فن گل کھلا کر رہا تم جو یوں
Sher
دل کو رہتی بھی ہے اب محفل یاراں کی تلاش
دل کو رہتی بھی ہے اب محفل یاراں کی تلاش اور طبیعت ہے کہ اس بزم میں گھبرائی بھی عابد جعفری
میں اجنبی رہا سب سے مگر سبھی میں رہا
میں اجنبی رہا سب سے مگر سبھی میں رہا یہ حوصلہ بھی یہاں پر کسی کسی میں رہا عابد جعفری
وہ درد سہا ہے کہ جو غیروں کا نہیں تھا
وہ درد سہا ہے کہ جو غیروں کا نہیں تھا وہ زخم لگے ہیں کہ جو خنجر کے نہیں ہیں عابد جعفری
وجود سونپ کے سب کچھ بچا لیا ہم نے
وجود سونپ کے سب کچھ بچا لیا ہم نے نہ آنکھ میں کوئی آنسو نہ سانحہ دیکھا عابد جعفری
کو بہ کو ہو گئیں تعمیر عبادت گاہیں
کو بہ کو ہو گئیں تعمیر عبادت گاہیں جمع کرتے ہی رہے ہم تو مکاں کے پتھر عابد جعفری
خاک میں مل گئے سب پھول سے لوگوں کے وجود
خاک میں مل گئے سب پھول سے لوگوں کے وجود لگ گئے قبر پہ بس نام و نشاں کے پتھر عابد جعفری
اب بھی یوں لگتا ہے جیسے ہر خبر ہو آج کی
اب بھی یوں لگتا ہے جیسے ہر خبر ہو آج کی اس لئے برسوں پرانا میز پر اخبار تھا عابد جعفری
ہر ایک صبح پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں
ہر ایک صبح پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں نہ جانے کون سی سرخی خبر میں رہتی ہے عابد جعفری
محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا
محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا ہے یوں کہ جیسے جنوں میں خود ہی پہ وار کرنا عابد جعفری
وہ ایک شخص مجھے کر گیا سبھی سے جدا
وہ ایک شخص مجھے کر گیا سبھی سے جدا ترس رہا ہوں میں جس شخص کی رفاقت کو عابد جعفری
کہیں تو سایۂ دیوار آگہی مل جائے
کہیں تو سایۂ دیوار آگہی مل جائے کوئی تو آئے کرے ختم اس مسافت کو عابد جعفری
وہ تو یہ کہئے شکستہ ہو چکا ہے حوصلہ
وہ تو یہ کہئے شکستہ ہو چکا ہے حوصلہ ورنہ دل اب بھی کسی کے وصل کو بیتاب ہے عابد جعفری